Maktaba Wahhabi

72 - 108
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مقام بلند: اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ائمہ و خلفاء کے ظلم پر صبر کرنے اور ان سے جنگ وبغاوت نہ کرنے کا حکم مناسب اور امت کے دین ودنیا کےلیے زیادہ بہتر تھا اور جنہوں نے بالقصد یا بلا قصد اس کی مخالفت کی۔ان کے فعل سے امت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچا۔یہی سبب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا تھا: ((إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللّٰهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ))(صحیح البخاری، الصلح، ح:۲۷۰۴) ’’میرا یہ فرزند سردا رہے عنقریب خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔‘‘ لیکن اس بات پر کسی شخص کی بھی تعریف نہیں کی کہ وہ فتنہ میں پڑے گا یا خلفاء پر خروج کرے گا یا اطاعت سے برگشتہ یا جماعت سے منحرف ہوگا۔اس حدیث سے صاف ثابت ہوتاہے کہ دو گروہوں میں صلح کرانا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں مستحسن ومحبوب ہے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت سے دستبردار ہوکر مسلمانوں کی خونریزی کا خاتمہ کردینا ان کے فضائل میں ایک عظیم ترین فضیلت ہے کیونکہ اگر خانہ جنگی واجب و مستحب ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ترک پر ہرگز تعریف نہ فرماتے۔ یہاں یہ معلوم کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ گود میں لے کر فرمایا کرتے تھے۔’’اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی محبت کر۔" چنانچہ جس طرح آپ اپنی محبت میں دونوں کو یکساں شریک کرتے تھے اسی طرح بعد میں یہ دونوں ان خانہ جنگیوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو جنگ صفین کے دن اپنے گھر بیٹھ رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے پدر برادر(حضر ت علی اور حسین رضی اللہ عنہما)کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔پھر جب خود بااختیار ہوئے تو جنگ سے دستبردار ہوگئے اور لڑنے والوں میں صلح قائم کردی۔خود حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ حقیقت روشن ہوگئی تھی کہ جنگ
Flag Counter