Maktaba Wahhabi

86 - 108
فرعون اور دوسرے کفار ومنافقین، قاتلین انبیاء او ر قاتلین مومنین اولین کا عذاب قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے کہیں زیادہ سخت ہوگا بلکہ عثمان کے قاتلوں کا گناہ بھی حسین کے قاتلوں سے زیادہ ہے۔ اہل سنت کا مسلک معتدل: حسین رضی اللہ عنہ کی طرفداری میں اس غلو کا جواب ناصبیوں کا غُلُو ہےجو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دے کر ((فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ))(صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲) انہیں باغی اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔لیکن اہل سنت والجماعت نہ اس کا ساتھ دیتے ہیں نہ اس غلو کا۔بلکہ یہ کہتےہیں کہ حضرت حسین مظلوم شہید ہوئے اور ان کے قاتل ظالم و سرکش تھے۔اور ان احادیث کا اطلاق ان پر صحیح نہیں جن میں تفریق بین المسلمین کرنے والے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ کربلا میں آپ کا قصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا، بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے مگر ظالموں نے آپ کا کوئی مطالبہ نہ مانا، نہ آپ کو وطن واپس ہونے دیا، نہ سرحد پر جانے دیا۔نہ خود یزید کے پاس پہنچنے دیا بلکہ قید کرنے پر اصرار کیا۔ایک معمولی مسلمان بھی اس برتاؤ کا مستحق نہیں ہوسکتا کجا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔ اسی طرح یہ روایت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سفید جھوٹ ہے۔ ’’جس نے میرے اہل بیت کا خون بہایا اور میرے خاندان کواذیت دے کر مجھے تکلیف پہنچائی اس پر اللہ کا اور میرا غصہ ہوگا۔‘‘ اس طرح کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کہیں بھی نہیں نکل سکتی تھی۔کیونکہ رشتہ داری اور قرابت سے زیادہ ایمان اور تقوی کی حرمت ہے اگر اہل بیت میں سے کوئی ایسا شخص جرم کرے جس پر شرعاً اس کا قتل واجب ہو تو بالاتفاق اسے قتل کرڈالا
Flag Counter