Maktaba Wahhabi

97 - 108
تھیں۔ہمارے لیے اس بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنے کاکوئی جواز ہے نہ یزید کی خلافت کو،جسے گنتی کے ۴ افراد کے علاوہ سب لوگوں نے اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا تھا، غلط کہنے کی کوئی بنیاد۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بھی یہی بات مناسب تھی کہ وہ اپنے سے مفضول شخص کی خلافت کو تسلیم کرلیتے، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ان کا احساس فضلیت ایک نہایت المناک سانحے کا سبب بن گیا۔ ان کے اس احساس ہی نے انہیں اختلاف کی راہ پر گامزن کردیا اور انہیں اس کے خطرناک عواقب کا احساس نہ ہونے دیا۔ ان کے اسی احساس کی وجہ سے کوفیوں کو یہ حوصلہ ہوا کہ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ایسے خطوط لکھے جن میں ان کے احساس فضیلت کا سامان تھا اور جس نے ان کے احساس کو ایک عزم راسخ میں بدل دیا۔ بہرحال گفتگو یہ ہورہی تھی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مزاج،حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مزاج سے یکسر مختلف تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دست برداری اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے صلح کرلینے کو بھی ناپسند فرمایا تھا۔(البدایۃ، ج:۸، ص:۱۷) ان کا یہ مزاج ہی سانحۂ کربلا کا سب سے بڑا سبب بنا،۔۔رضی اللہ عنہ۔۔اس کی مرحلہ وار تفصیل آئندہ صفحات میں مختصراً پیش کی جاتی ہے۔ پہلا مرحلہ……ترک مدینہ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب یزید تخت خلافت پر متمکن ہوا، تو یزید کی طرف سے مقرر گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر یزید کی بیعت کرنے کا کہا، تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "مجھ جیسا شخص پوشیدہ بیعت نہیں کرتا اور میرے خیال میں تمہارے نزدیک بھی میری خفیہ بیعت کافی نہیں ہوگی جب تک کہ ہم اسے لوگوں کے سامنے علانیہ طور پر نہ کریں۔(ولید نے کہا)ٹھیک ہے۔حضر ت حسین رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا: جب تم سب لوگوں سے بیعت لو گے تو ہمیں بھی لوگوں کے ساتھ بلا لینا، پس ایک ساتھ ہی سب کام ہوجائے گا۔"(الطبری، ۲۵۱/۴، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرہ، ۱۹۳۹ء۔البدایۃ والنہایۃ، ۱۵۰/۸)
Flag Counter