Maktaba Wahhabi

99 - 108
ارادے پر قائم ہوں۔اس پر محمد بن حنفیہ نے کہا۔ ’’پھر آپ مکے ہی میں قیام فرمائیں، اگر وہاں صورت حال اطمینان بخش ہو تو فبہا، وگرنہ آپ وادیوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کو اپنا مسکن بنائیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر جاکر جائزہ لیتے رہیں اور دیکھیں کہ لوگوں کا معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔اس کی روشنی میں آپ کوئی رائے قائم فرمائیں۔یہ رائے درست بھی ہوگی اور اس پر عمل، حزم واحتیاط کا مظہر بھی۔۔۔‘‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میرے بھائی! تمہاری نصیحت مشفقانہ ہے اور مجھے امید ہے کہ تمہاری رائے سدید(درست)مُوَفَّق(من جانب اللہ)ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا ارادہ ختم نہیں کیا اور مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔(الطبری، ۲۵۳/۴۔البدایۃ، ۱۵۰/۸) دوسرا مرحلہ……مکے میں قیام اور لوگوں کے خیرخواہانہ مشورے: کہا جاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دونوں جب یزید کی بیعت سے بچنے کےلیے مکہ جارہے تھے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ مکے سے واپس آرہے تھے، یہ دونوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو راستے میں ملے اور انہوں نے ان سے ان کے مدینے سے مکہ آنے کی بابت پوچھا، تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی ہے اور یزید کے لیے بیعت لی جارہی ہے۔تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو خطاب کرکے کہا:’’اللہ سےڈرو! اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ مت ڈالو۔’‘(الطبری، ۲۵۴/۴) حافظ ابن کثیر نے دونوں کے اقوال کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے، وہ بھی ملاحظہ فرما لیے جائیں۔مکے کے دورانِ قیام حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا۔ ’’بھتیجے! میں صبر کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن صبر نہیں ہوتا، مجھے تمہارے اس طرز عمل سے ہلاکت کا اندیشہ ہے، عراقی بے وفا لوگ ہیں، ان کی وجہ سے دھوکہ مت کھاؤ! تم
Flag Counter