Maktaba Wahhabi

125 - 169
ہوں۔ اہلِ ایمان کی ذمے داری صرف تبلیغ ہے، تکفیر اُن کی ذمے داری نہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جون ۲۰۰۷ء،ص۴۰) اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تکفیر کی عوامی تحریکوں کی مذمت کرنی چاہیے اور یہ کوئی تعمیری کام نہیں ہے ،لیکن اِس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ جس کا کفر قطعی ہو اور اُس کے کفر پر اُمت کے جمیع مکاتب فکر کا اتفاق بھی ہو تو اُسے بھی دین اسلام سے خارج نہ مانا جائے۔جس گروہ کے کفر پر اِس قدر اُمت کا اتفاق ہو کہ ریاستی سطح پر اُس کے غیر مسلم ہونے کے بارے باقاعدہ قانون سازی موجود ہو تو پھر اُس کو غیر مسلم قرار دینے میں کیا ہچکچاہٹ ہو سکتی ہے؟ جیسا کہ تعزیراتِ پاکستان(Pakistan Penal Code)کی دفعات295-B اور 295۔C قادیانی اور احمدی گروہ کے بارے قانون سازی پر مشتمل ہیں۔ اِن دفعات کے مطابق کسی قادیانی یا احمدی یا لاہوری گروپ کے پیروکار کو قانوناً یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب کو اسلام اور اپنے آپ کو مسلمان کا نام دے۔ یا اپنی عبادت گاہ کو مسجد اور عبادت کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کے طریقے کو اذان قرار دے۔ یا اپنے عقیدے کی تقریر یا تحریر سے اِس طرح تبلیغ کرے کہ اُس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں وغیرہ تواِن تمام صورتوں میں تعزیراتِ پاکستان کے تحت تین سال قید اور جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔ اہلیت، شرائط اور موانع کی موجودگی میں اور دین اسلام کی حدود کے دفاع کے لیے تکفیر ایک ضرورت اور استثناء ہے نہ کہ کوئی مستقل دینی حکم۔ اگر یہ اَمر پیش نظر رہے تو اِس قاعدہ کلیہ کے غلط استعمال کو بہت حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فائنل ماڈل نہیں ہیں؟ خان صاحب کے تصورِ ختم نبوت کے ذیل میں ہم ان کے تصورِ رسالت کے حوالہ سے بعض دیگر باطل افکار کی نشاندہی کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔مولانا مودودی رحمہ اللہ کے ردِ عمل میں خان صاحب کااقامتِ دین، نفاذ ِشریعت، جہاد اور اَمن وغیرہ کے حوالہ سے دین کا جو ایک خاص تصور قائم ہوا ہے، اِس کے مطابق اُن کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں چونکہ دعوت کے علاوہ جہاد وقتال بھی ہے لہٰذا یہ اُسوہ ہمارے لیے کامل
Flag Counter