Maktaba Wahhabi

136 - 169
میں ایک اور دنیا میں پہنچ گیا۔ اِس تجربے کو قریب تر الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے کہ میں اپنے وجود کی صورت میں بلاتشبیہ خدا کی موجودگی کو محسوس کر رہا ہوں۔ میں خدا کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہوں، میں خدا کے سننے کو سن رہا ہوں، میں خدا کے سوچنے کا تجربہ کر رہا ہوں۔ اُس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے میرا وجود بلاتشبیہ خدا کے وجود میں ڈھل گیا۔اُس وقت خدا میرے لیے اتنا ہی یقینی وجود بن گیا، جتنا کہ مجھے خود اپنا وجود یقینی معلوم ہوتا ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جون ۲۰۱۱ء، ص۳۶) ایک تو خان صاحب نے اِس عبارت میں خدا کی صفات کو اپنی صفات سے تشبیہہ دی ہے جو کہ ممنوع ہے۔ اُنہوں نے خدا کے دیکھے اور سننے کو اپنے دیکھنے اور سننے سے مشابہت دی ہے جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَیْْسَ کَمِثْلِہِ شَیْْء ٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾(الشوریٰ: ۱۱) ’’ اللہ کی مانند کوئی بھی چیز نہیں ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ آیت کے پہلے حصے میں مماثلت کی نفی ہے جبکہ دوسرے حصے میں صفات کا اثبات ہے۔ پس اللہ کے لیے اِن صفات کا اثبات تو درست ہے جو انسان میں بھی پائی جاتی ہے جیسا کہ سماعت اور بصارت لیکن اِن صفات الہٰیہ کو انسانی صفات کے مشابہہ اور مماثل قرار دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ آیت کا پہلا حصہ اِس پر دلالت کر رہا ہے۔ اِسی طرح خان صاحب کا اپنے وجود کی صورت میں خدا کی موجودگی کو محسوس کرنا یا خان صاحب کے وجود کا خدا کے وجود میں ڈھل جانا، جیسی عبارتیں بلاشبہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عقیدہ توحید کے منافی ہیں۔ ضعیف روایات سے استدلال خان صاحب اُصولی طور بغیر تحقیق حدیث بیان کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’لوگ عام طور پر ایسا کرتے ہیں کہ خطیبوں اور واعظوں کی زبان سے ’حدیث، سنتے ہیں۔ چوں کہ یہ حدیث عربی الفاظ میں ہوتی ہے، اِس لیے لوگ اِس کو قول رسول سمجھ لیتے ہیں اور اِس کو بطور قول رسول بیان کرنے لگتے ہیں، مگر یہ طریقہ
Flag Counter