Maktaba Wahhabi

141 - 169
مصدر یا ماخذ کا ۔ پس خان صاحب کا یہ دعوی درست نہیں ہے کہ مصادرِ شریعت میں’ اجتہاد‘بھی شامل ہے۔ مجتہد کا فعل کسی طور بھی مصدر شریعت نہیں ہو سکتا ہے۔ اجتہاد کا لفظ بعض علماء ’فقہ‘ کے معنی میں بھی استعمال کر لیتے ہیں جیسا کہ ’اجتہاداتِ ائمہ‘سے مراد ائمہ صالحین کی ’فقہ، ہے۔ پس اجتہاد کو اگر مجتہد کے فہم یا فقہ کے معنی میں بھی لیں تو اِس معنی میں بھی یہ مصدرِ شریعت نہیں قرار پاتا۔ شریعت وہ ہے کہ جس کی قطعی طور نسبت اللہ کی طرف ممکن ہو جبکہ اجتہاد کی قطعی طور نسبت اللہ کی طرف ممکن نہیں ہے کیونکہ اِس میں خطا وصواب دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں۔ ہاں! اگر علماء کا کسی اجتہاد پر اتفاق ہو جائے جسے اصطلاح میں اجماع کہتے ہیں تو یہ ایک ثانوی مصدرِ شریعت ہے۔ مثلاً اگر علماء کا کسی نص کے معنی پر اتفاق ہو جاتا ہے کہ اِس کا یہ معنی ہے تو اِس معنی کی نسبت اللہ کی طرف کی جا سکتی ہے اور اِس بارے ہم نے تفصیلی بحث اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں کی ہے۔ پس اصل مصادر کتاب وسنت ہی ہیں۔ رہی بات اجماع وقیاس کی تو وہ بھی فقہاء کی اصطلاح میں ’مُظہرِشریعت‘ہیں نہ کہ ’مُثبتِ شریعت‘۔ یعنی اجماع اور قیاس شرعی حکم کو ظاہر کرتے ہیں یا سامنے لے آتے ہیں۔ شرعی حکم کا اثبات کتاب وسنت سے ہی ہوتا ہے۔ اجماع وقیاس سے کوئی نیا شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا بلکہ کتاب وسنت سے کے مخفی حکم کا اظہار ہوتا ہے۔ مسئلہ فلسطین مہدی کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت ہے جس کے الفاظ کچھ اِس طرح سے ہیں: ((یَمْلَاُ الْاَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِیْنَ))(سنن أبی داؤد، کتاب المھدی) ’’مہدی زمین کو عدل وقسط سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم وجَور سے بھر دی گئی تھی اور سات سال بادشاہ رہے گا۔‘‘ خان کا اصرار یہ ہے کہ اِس حدیث میں یہ جوپشین گوئی کی گئی ہے کہ ایک زمانے میں زمین ’ظلم وجَور، سے بھر جائے گی تو یہ ’ظلم وجَور، مسلمانوں کا پھیلایا ہوا ظلم ہے۔ اور مسلمان بھی
Flag Counter