Maktaba Wahhabi

147 - 169
باب نہم تزکیہ وتذکیر خان صاحب کا تزکیہ نفس کا تصور خان صاحب کا تزکیہ نفس(purification)کا تصور بھی بہت ہی عجیب ہے۔ اسلام نہیں بلکہ مذہب کی تاریخ میں غالباً وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تزکیہ نفس کی بنیاد ’قلب‘ کی بجائے ’عقل‘ کو بنایا ہے ۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کاتزکیہ مبنی بر عقل تزکیہ ہے، نہ کہ مبنی بر قلب تزکیہ۔ اس سلسلے میں ’’قلب‘‘ کا لفظ قرآن اور حدیث میں لٹریری معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، نہ کہ سائنسی معنوں میں۔ بعد کے زمانے میں، صوفیا کے اثر سے مسلمانوں میں مبنی بر قلب تزکیہ کا تصور رائج ہو گیا۔ اِس تصور کے تحت یہ سمجھ لیا گیا کہ انسان کا قلب تمام ربانی حقیقتوں کا خزانہ ہے۔ مراقبہ کے ذریعے اِس خزانہ تک پہنچو، اور پھر تم کو وہ چیز حاصل ہو جائے گی جس کو اسلام میں تزکیہ کہا گیا ہے۔ مگر مبنی بر قلب تزکیہ کا یہ تصور قرآن سے ماخوذ نہ تھا، بلکہ اس کا ماخذ تاریخ تھا۔ قدیم زمانے سے چوں کہ مبنی بر قلب روحانیت کا تصور لوگوں کے درمیان چلا آرہا تھا، اِس کے زیر اثر مضاہات کے طور پر لوگوں نے اِس کو اسلام میں داخل کر دیا۔ جدید سائنس نے وہ علمی بنیاد فراہم کر دی ہے جس کے تحت اسلامی تزکیہ کو دوبارہ مبنی بر دماغ تزکیہ کے طور پر زندہ کیا جائے۔جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کا قلب خون کی گردش کے لیے صرف ایک پمپ کا کام کرتا ہے، قلب کے اندر سوچنے کی صلاحیت موجود نہیں۔سوچنے کی صلاحیت تمام تر صرف دماغ میں ہے۔ انسان کی زندگی کے تمام افعال سوچنے کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں۔ تزکیہ کا معاملہ کوئی مستثنیٰ معاملہ نہیں۔ تزکیہ کا مقصد بھی دماغ کی سطح پر سوچنے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ قلب پر مفروضہ توجہ دینے سے۔ قلب پر توجہ دینا، اتنا ہی زیادہ بے بنیاد ہے، جتنا کہ حصول تزکیہ کے لیے ناخن یا بال پر توجہ دینا۔ ‘‘ (ماہنامہ
Flag Counter