Maktaba Wahhabi

152 - 169
﴿الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُورِ النَّاسِ﴾(الناس: ۵) ’’جو لوگوں کے سینوں میں وسوے ڈالتا ہے۔‘‘ اِس آیت میں شیطان کے انسانی قلب میں وسوسہ ڈالنے کا بیان ہے اور ’قلب‘ بھی وہ جو سینے میں ہوتا ہے۔ پس اِس سے معلوم ہوا کہ انسان کی اصلاح وبگاڑ میں اصل کردار قلب کا ہے نہ کہ عقل کا۔ عقل کا کردار ایک ثانوی اور تابع کی حیثیت سے ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم التویجری کی کتاب ’’موسوعۃ فقہ القلوب‘‘ اعمال قلوب پر ایک عمدہ کتاب ہے۔ مزید مطالعہ کے لیے ﴿الأنفال:۲۴﴾ اور ﴿الحجرات:۳﴾ اور ﴿التغابن:۱۱﴾ اور ﴿ق:۳۳﴾ اور ﴿البقرۃ:۷۴﴾ اور ﴿الحج:۵۴﴾ اور ﴿محمد: ۲۴﴾ اور ﴿الأعراف:۱۷۹﴾ اور ﴿البقرۃ:۲۸۳﴾کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ خان صاحب اور تذکیر خان صاحب کی تحریروں کا ایک مثبت پہلو وعظ ونصیحت پر مبنی اُن کی چھوٹی چھوٹی تحریریں ہوتی ہیں جو آخرت پر ایمان کی تازگی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ خان صاحب کی تحریروں میں تذکیر کا پہلو قابل تحسین ہے ۔ یہ قول درست ہے کہ اُن سے پہلے لوگ یہ تو جانتے تھے کہ ’خطاب، کے ذریعے تذکیر ہوتی ہے لیکن وعظ ’ تحریر ،سے بھی ہو سکتا ہے، اُردو زبان میں کم ازکم یہ خان صاحب نے بتلایا ہے۔ ایک جگہجدید دور کے مشینی انسان کا المیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’موجودہ زمانے میں لوگوں کو دیکھئے تو ہر عورت اور ہر مرد مشغول(busy)نظر آئیں گے۔ لوگوں کی یہ مشغولیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی اور بات سننے کے لیے فرصت نہیں۔ لوگوں کے پاس اپنے وقت اور اپنے پیسے کا ایک ہی استعمال ہے، یہ کہ وہ اپنے وقت اور اپنے پیسے کو اپنی مطلوب منزل تک پہنچنے کے لیے پوری طرح لگا دیں۔ لوگوں کی مشغولیت کس کام کے لیے ہے، وہ کام صرف ایک ہے۔ اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانا، اپنے دنیوی مستقبل کی تعمیر کرنا۔ لیکن موت اِس نظریہ حیات کی تردید ہے۔ ہر آدمی کا آخری انجام یہ ہے کہ وہ بہت جلد مر جاتا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا کو مکمل طور پر چھوڑ دیتا ہے۔ اب وہ تنہا ایک ایسے عالم کی طرف چلا جاتا ہے، جہاں کے لیے اُس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
Flag Counter