Maktaba Wahhabi

159 - 169
باب دہم خان صاحب کی ذہنی اُلجھنیں خان صاحب جس ذہنی اُلجھن کے ساتھ مسلمانوں پر نقد کرتے ہیں اور اپنے بارے مہدی،مسیح، رجل مؤمن، دابۃ الارض اور قتل دجال وغیرہ کا تصور قائم کرتے ہیں اُسے جدید علم نفسیات کی روشنی بڑائی کا وہم(Grandiose delusion) کہتے ہیں کہ جس میں ایک شخص اپنی ذات کی بڑائی کے وہم(delusions of grandeur)میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہزاروں یا لاکھوں میں ایک نہیں بلکہ دنیا میں ایک سمجھنے لگتا ہے۔ خان صاحب ایک جگہ اپنے ماسوا علماء پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ سو سال سے بھی زیادہ مدت سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ہمیں دور جدید کے علماء کی ضرورت ہے، یعنی ایسے علماء جو علوم دینیہ کی تحصیل کے علاوہ وقت کے علوم کی بھی تعلیم حاصل کریں۔ اِس طرح ایسے علماء تیار ہوں جو قدیم و جدید دونوں سے واقف ہوں تا کہ وہ عصر حاضر کے مطابق، اسلام کی خدمت انجام دے سکیں…ایسے لوگوں کی فہرست ہزاروں میں شمار کی جا سکتی ہے جو دونوں قسم کی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے، مگر وہ ملت کی مطلوب ضرورت پورا نہ کر سکے۔ مثال کے طور پر چند نام یہاں لکھے جاتے ہیں۔ مولانا حمید الدین فراہی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، پروفیسر مشیر الحق، ڈاکٹر عبد الحلیم عویس، ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی، مولانا محمد تقی عثمانی، پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی، پروفیسر محمد اجتبا ندوی، پروفیسر محسن عثمانی، پروفیسر ضیاء الحسن ندوی، ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر سعود عالم قاسمی وغیرہ… میں نے ذاتی طور پر اِس قسم کے علماء کی تحریریں پڑھی ہیں، مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن سب کی تحریریں قدیم روایتی مسائل کی جدید تکرار کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:مارچ ۲۰۰۷ء، ص ۴۔۵) ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
Flag Counter