Maktaba Wahhabi

167 - 169
ہیں۔ پس اُن کی تحریر در اصل اُن کے ذہن کی عکاس ہے۔ اگر اُصول نفسیات کی روشنی میں اُن کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو اُن کے ذہنی مسائل بہت حد تک نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ وہ ساری زندگی دوسروں کے ذہن کا تجزیہ کرتے رہے لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ اپنے قارئین کے سامنے اپنا ذہن کھول کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ عمر بھر دوسروں کی ڈی کنڈیشنگ(de-conditioning)کرتے رہے لیکن شاید اپنی نہ کر سکے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’انسانی دماغ کے دو بڑے حصے ہیں۔ شعور ، اور لاشعور ۔ فطری نظام کے تحت، کوئی منفی احساس پہلے ذہن کے شعوری حصے میں داخل ہوتا ہے۔ اگر اُس کو فورا ذہن سے نکالا نہ جائے تو وہ دھیرے دھیرے ذہن کے لاشعوری حصہ میں پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اُس کو نکالنا سخت مشکل ہو جاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنا نگران بنا رہے، وہ ہر لمحہ اپنے منفی احساس کو پراسس(process)کر کے مثبت احساس میں تبدیل کرتا رہے، یعنی وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشنگ(de-conditioning)کرے، وہ اپنے ذہن کی تطہیر کر کے اُس کی آلودگی کو ختم کرتا رہے۔ ‘‘(ماہنامہ الرسالہ: فروری ۲۰۱۱ء، ص۸) یہ بحث ہم نے اِس لیے کی ہے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ خان صاحب بدنیت یا اسلام دشمن یا یہودی ایجنٹ نہیں ہیں جیسا کہ اُن کے بعض ناقدین کی رائے ہے۔ بلکہ صحیح تر تجزیہ یہ ہے کہ اُن کے ساتھ کچھ نفسیاتی پرابلم ہیں جنہوں نے اُنہیں تخیلات کی اِس دنیا(fantasy and delusion)تک پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں ایک نہیں بلکہ دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک شمار کر رہے ہیں۔ اِس تجزیے کے مطابق اُن کے غیر متوازن اور مسلم اُمہ کے بارے عدم برداشت کے رویوں کے جواب میں غصہ کرنے کی بجائے خیرخواہی کے جذبات پیدا ہونے چاہییں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مریض سے نفرت نہیں کی جاتی بلکہ وہ ہمدری کا مستحق ہوتاہے اور ناپسند اُس کے مرض کوکیا جاتا ہے جبکہ خود اُس کے حق میں صحت کی دعا کی جاتی ہے۔ خلاصہ کلام مولانا وحید الدین خان صاحب بلاشبہ ذہین، محنتی اور مخلص شخص ہیں ،لیکن مولانا
Flag Counter