Maktaba Wahhabi

66 - 169
گا۔ اگر تو دابہ سے مراد انسان لیا جائے تو پھر اِس دابہ کے خروج کے خرقِ عادت ہونے کی کوئی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے اور اِس کا قیامت کی دس نشانیوں میں ذکر کرنا بھی سمجھ میں نہیں آتا ،کیونکہ اہلِ بدعت کے ساتھ مناظرہ کرنے والے تو بہت زیادہ ہیں[اور دابہ جس کا ذکر قرآن میں ہے، وہ ایک ہے]، پس اِس صورت میں آیت میں کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی اور دابۃ الارض کے قیامت کی دس نشانیوں میں ذکرکی وجہ بھی درست معلوم نہیں ہوتی اور[انسان مراد لینے کی صورت میں] خاص طور پر اُس کا ظہور اُس وقت جبکہ قیامت واقع ہو، سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر اگر اِس سے مراد انسان لے بھی لیا جائے تو پھر یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ عالم، فاضل، مناظر اور امام کے رتبے پر فائزانسان کو دابہ یعنی جانور کہہ دیا گیا ہے۔ فصحائے عرب کی یہ عادت نہیں ہے اور نہ ہی اِس میں علماء کی کوئی تعظیم ہے کہ انہیں دابہ [جانور] سے تشبیہ دی جائے۔ اِسی طرح اہل عقل کی بھی یہ عادت نہیں ہے کہ انسان کو دابہ [جانور]سے پکاریں۔ پس بہترین قول وہی ہے جو اہل ِتفسیر کا ہے اور اللہ تعالیٰ حقائق کا علم بہتر جانتا ہے۔‘‘ دریائے فرات سے سونے کا خزانہ برآمد ہونا قیامت کی نشانیوں میں اِس کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ دریائے فرات سے سونے کا خزانہ برآمد ہو گا۔ خان صاحب اِس روایت کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((یُوْشِکُ الْفُرَاتُ اَنْ یَحْسِرَ عَنْ کَنْزٍ مِنْ ذَھَبٍ))(صحیح مسلم، کتاب الفتن)یعنی وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ دریائے فرات میں سونے کا ایک خزانہ نکلے۔ اِس حدیث میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، اِس سے واضح طور پر پٹرول مراد ہے، جس کو موجودہ زمانے میں سیال سونا(liquid gold)کہا جاتا ہے اورجو بہت بڑی مقدار میں شرق ِاوسط کے عرب علاقے میں ظاہر ہوا ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء،ص ۵۸) خان صاحب نے یہاں بھی حسب عادت مکمل روایت نقل نہیں کی ہے اور صرف اتنا حصہ ہی نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے کہ جس سے اُن کی تاویل پر کوئی اعتراض قاری کے
Flag Counter