Maktaba Wahhabi

67 - 169
ذہن میں پیدانہ ہو۔ مکمل روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ((یُوْشِکُ الْفُرَاتُ اَنْ یَحْسِرَ عَنْ کَنْزٍ مِنْ ذَھَبٍ، فَمَنْ حَضَرَہٗ فَلَا یَاْخُذْ مِنْہُ شَیْئًا))(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب خروج النار) ’’ قریب ہے کہ فرات سے سونے کا ایک خزانہ بر آمد ہو اور جو شخص بھی اُس کے پاس موجود ہو وہ اُس میں سے کچھ نہ لے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس ’سونے‘(gold)کے خزانے سے کچھ لینے سے منع فرمایا ہے۔ اگر تو اِس کی تاویل تیل یا پٹرول سے کی جائے تو یہ تو ضروریاتِ زندگی میں سے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِسے حاصل کرنے سے کیسے منع فرما سکتے ہیں؟ اگرتو’’ذَھَبٍ‘‘سے مراد تیل ہی ہے تو خان صاحب کوعرب مسلمان ممالک کی حکومتوں کو مشورہ دینا چاہیے کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق وہ اِس گولڈ کو ہاتھ بھی نہ لگائیں اور بہتر ہے کہ اہل مغرب کے لیے چھوڑ دیں۔ اِس روایت کے اُسلوب بیان ہی سے واضح ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس خزانے کے ظہور کو ایک فتنہ اور آزمائش قرار دیا ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اِس میں سے کچھ لینے سے منع فرمایا ہے ۔اور اس کا فتنہ ہونا ’سونا‘(gold)مراد لینے کی صورت میں ہی بہتر طور پورا ہو سکتا ہے۔ دُخان یا دھواں قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی’دخان‘بھی بیان کی گئی ہے اور یہ مؤمنین کے لیے آزمائش اور کفار کے لیے عذاب کی صورت میں نازل ہو گا۔ خان صاحب اس کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت کی دس نشانیوں کا ذکر فرمایا۔ اُن میں سے ایک نشانی دخان کا ظاہر ہونا ہے۔ دخان کے لفظی معنی دھواں کے ہیں۔ اِس روایت میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا، جب کہ زمین کی پوری فضا دھویں سے بھر جائے گی۔موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی واقعہ بن چکی ہے۔ اس سے مراد واضح طور پر وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں فضائی کثافت(air pollution)کہا جاتا ہے۔ جدید صنعتی
Flag Counter