Maktaba Wahhabi

74 - 169
میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں بھی((البَیتَ))سے مراد ’بیت اللہ‘ ہی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ، لہٰذا آپ کے ارشادات کا کوئی ایسا معنی ومفہوم بیان کرناجس کا ادراک (cognition)اولین مخاطبین کے لیے ناممکن ہو، درست نہیں ہے۔کیونکہ اگر اِس روایت کے معنی ومفہوم کا ادراک اوّلین مخاطبین ہی کے لیے ناممکن ہو تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کلام ہی کیوں فرمایا؟پس خان صاحب نے((البَیتَ))کی جو تاویل کی ہے وہ ایسا معنی ہے کہ جس کا ادراک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے کسی طور ممکن نہیں تھا ،لہٰذا اِس تاویل کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایک ایسا کلام فرمایا ہے جس کا معنی ومفہوم جاننا اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ فیا للعجب! قیامت کا واقع ہونا مولانا وحید الدین خان صاحب کے بقول قیامت کی تقریباً تمام علامات ظاہر ہو چکی ہیں اور اب اُس کے وقوع کا وقت بہت ہی قریب ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ(global warming)کے نتیجے میں ۲۰۵۰ء تک قیامت کے واقع ہونے کے قوی امکانات ہیں: ’’ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جو کلائمیٹ چینج کا واقعہ پیش آ رہا ہے،اِس کی روشنی میں مغربی سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ ۲۰۱۰ء تک موجودہ دنیا کا لائف سپورٹ سسٹم بہت زیادہ بگڑ جائے گا،اور ۲۰۵۰ء تک شاید زمین پر ہر قسم کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: ستمبر ۲۰۰۷ء،ص۱۰) ایک اور جگہ۲۰۵۰ء تک قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بھر کے سائنس دانوں نے اپنے مطالعے کے مطابق،متفقہ طور پر یہ اعلان کرنا شروع کر دیا ہے کہ زمین میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں نہایت تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ جدید سائنسی مشاہدات کے مطابق،اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ ہونے والا ہے کہ تقریباً ۲۰۵۰ء سے پہلے ہی ہماری زمین ناقابل رہائش(inhabitable)ہو جائے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء،ص۵۵)
Flag Counter