Maktaba Wahhabi

80 - 169
اُنہوں نے تحریر کی صورت میں اپنے خیالات کو ممکن حد تک منضبط تو کر لیا اور اِس میں اُس وقت تک رد عمل معمولی نوعیت کا تھا لیکن آہستہ آہستہ رد عمل کی نفسیات میں اضافے کے سبب سے فکرِمودودی کے بارے اُن کا موقف غلو کے تدریجی مراحل طے کرتے ہوئے اقامتِ دین،نفاذِ شریعت،جہاد،امامت وخلافت،سیاست، اسلامی تحریک اور اجتماعی اصلاح کی جمیع پُراَمن کوششوں سے بھی ایک ’’چڑان‘‘(irritation)کی صورت اختیار کر گیا اور اُسلوبِ نقد ونظر میں بھی خوارج جیسی شدت اور انتہا پسندی کا اظہار ہونے لگا۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ سے اُنہیں جو اختلافات تھے،اُس کا اظہار اُنہوں نے اپنی کتاب ’تعبیر کی غلطی‘ میں تفصیل سے کیا ہے جو پہلی مرتبہ ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب کا ابتدائی حصہ مولانا صدر الدین اصلاحی،مولانا جلیل احسن ندوی،مولانا ابواللیث ندوی اور مولانا مودودی رحمہ اللہ کے ساتھ خط وکتابت پر مشتمل ہے۔کتاب کا دوسرا حصہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے تصور وتعبیر دین کی غلطی اور اِس کے نتائج کی وضاحت پر مشتمل ہے ،جبکہ تیسرے حصے میں مولانانے اپنے تئیں صحیح تصورِ دین کو پیش کیا ہے۔فکرِمودودی کے بارے میں خان صاحب کے نقطہ نظر کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر رہے ہیں: پہلا فکری دور شروع شروع میں جب خان صاحب کو فکر ِمودودی سے اختلاف پیدا ہواتو اُنہوں نے جماعت کے رفقاء سے اِس کا اظہار کرنا شروع کیا، لیکن چونکہ خان صاحب تا حال اپنے اختلاف کو بیان کرنے میں اتنے واضح اور متعین نہیں تھے لہٰذا عموماً سینئر رفقائے جماعت نے اُن کے اختلافات کو لفظی اختلاف کا نام دے کر معاملہ رفع کرنے کی کوشش کی۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ ایک اور بزرگ جو جماعت میں انتہائی چوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں،ان سے بار بار گفتگو ہوئی مگر وہ ہمیشہ مجھ کو یہی سمجھاتے رہے کہ تم جو کچھ سوچ رہے ہواُس میں اور جماعت کے فکر میں کوئی خاص فرق نہیں،دونوں تقریباً ایک ہی ہیں۔ یہ گفتگوئیں جون ۱۹۶۰ء سے لے کر ستمبر ۱۹۶۱ء تک رامپور ،دہلی اور اعظم گڑھ میں ہوئیں ........اِس قسم کے اور بھی بعض افراد ہیں جنھوں نے مجھ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ محض لفظی فرق ہے، ورنہ حقیقتاً دونوں باتوں میں کوئی فرق
Flag Counter