Maktaba Wahhabi

86 - 169
نہایت منظم طور پر راقم الحروف کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہے ہیں،تنقید کے میدان میں اپنے کو عاجز پا کر وہ ’تنقیص‘ کے میدان میں اتر آئے ہیں۔ کاش انھیں معلوم ہوتا کہ اِس طرح وہ اپنے کیس کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ وہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف علمی دیوالیہ پن کا شکار ہیں بلکہ وہ اخلاقی دیوالیہ پن میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔‘‘( تعبیر کی غلطی: ص۱۱) تیسرا فکری دور جماعت کی طرف سے اِس بیس پچیس سالہ کشاکش نے خان صاحب میں تحریکی اور انقلابی فکر ہی سے اس قدر ردّ عمل(reaction)پیدا کر دیا کہ اُنہیں سیاست،نفاذِ شریعت، جہاد اوراسلامی تحریک کے عناوین ہی سے ’چڑان‘(irritation)پیدا ہو گئی۔ یہیں سے اُن کی شخصیت میں اِس فکر کے حوالہ سے عدمِ توازن اور غیر متعدل رویوں کے پروان چڑھنے کا عمل شروع ہوتا ہے اور رد عمل کی یہ نفسیات آہستہ آہستہ بذاتِ خود ایک فکر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔’تعبیر کی غلطی‘ نامی اپنی کتاب جب خان صاحب نے جماعت کے ایک اعلیٰ ذمہ دار کو دکھائی تو اُنہوں نے بہت خوبصورت تبصرہ فرماتے ہوئے خان صاحب سے کہا: ’’ابو الکلام صاحب،مودودی صاحب اور آپ تینوں ایک مشترک غلطی میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ کہ کچھ وقتی خرابیوں کا احساس کر کے انھیں دور کرنے کی کوشش کی مگر اصلاح حال کی کوشش غیر شعوری طور پر تعبیر دین کی کوشش بن گئی۔ جو چیز عملی اصلاح سے متعلق تھی اُس کو نظریاتی تشریح کی حیثیت دے دی گئی،نتیجہ یہ ہوا کہ افراط وتفریط پیدا ہوگئی،توازن باقی نہ رہا۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص۳۰۔۳۱) پس خان صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا کہ وہ ایک تعبیر دین کی اصلاح کرتے کرتے کچھ خارجی اور داخلی عوامل واسباب سے متاثر ہوئے اور ضدکی نفسیات(stubbornnes)اور تنقید پسندانہ مزاج کا شکار ہو کر ایک دوسری انتہا پسندی پر جا پہنچے کہ جس کا آغاز قریب قریب اُن کی کتاب ’راہِ عمل، مطبوعہ ۱۹۹۰ء سے ہوا۔ خان صاحب لکھتے ہیں : ’’’موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں حیرت انگیز طور پر انتہائی
Flag Counter