Maktaba Wahhabi

97 - 169
باب ششم تصورِ جہاد واَمن سابقہ باب میں ہم نے مولانا وحید الدین خان صاحب کے تصورِ اقامت دین اور نفاذِ شریعت کا جائزہ لیاتھا۔ ذیل میں ہم اُن کے تصورِ جہاد اور تصورِ امن کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں۔ خان صاحب کا تصور ِجہاد مولانا وحید الدین خان صاحب صرف دفاعی جہاد کے قائل ہیں اور وہ بھی صرف ریاست کے لیے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اِس کا اختیار بھی صرف حاکم قوت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جہاد کی ہر گز اجازت نہیں۔ اسلام میں اگرچہ دفاع کے لیے جنگ کی اجازت ہے، لیکن اِسی کے ساتھ شدت سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے، یعنی دفاع کے حالات پیدا ہونے کے باوجود آخری حد تک جنگ سے اعراض کی کوشش کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف تین بار باقاعدہ جنگ ہوئی، یعنی بدر اور اُحد اور حنین کی جنگ۔ اِس کے سوا جن کو غزوہ کہا جاتا ہے، وہ یا تو صرف پُراَمن مہمیں تھیں، مثلاً غزوئہ تبوک(۹ہجری)، یا جنگ کی حالت پیدا ہونے کے باوجود جنگ سے اعراض مثلاً غزوئہ خندق(۵ ہجری)یا بعض واقعات کی صورت میں صرف جھڑپیں(skirmishes)۔ غزوئہ خیبر(۷ ہجری)کی نوعیت اسی قسم کی ہے۔جنگ کے باقاعدہ واقعات بھی اِس طرح ہوئے کہ اُن میں عملاً صرف آدھے دن کی لڑائی ہوئی، یعنی دوپہر کے بعد جنگ کا آغاز اور شام تک جنگ کا خاتمہ، جیسا کہ غزوئہ بدر اور غزوئہ اُحد اور غزوئہ حنین کے موقع پر پیش آیا۔ اِس لحاظ سے یہ کہنا درست ہو گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ۲۳ سالہ دورِ نبوت میں مجموعی طور پر صرف ڈیڑھ دن کے لیے جنگ کی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:مارچ ۲۰۰۸ء، ص۴۔۵)
Flag Counter