Maktaba Wahhabi

152 - 259
یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ یہ سب لوگ بے علم تھے، اس لیے ان کے لیے ایسی باتیں روا تھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں کسی بشر کے لیے روا نہیں رکھیں۔ ہاں! زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے کم علمی کی حالت میں عفو ومغفرت کی امید کی جاسکتی ہے، لیکن مکروہات کو مستحب سمجھنا اور محرمات کو حلال جاننا کسی حال میں بھی معاف نہیں ہوگا۔ لہٰذا دونوں باتوں میں فرق ضرور رکھو۔ ایک تو یہ ہے کہ کسی شخص کو اس کا ناروا فعل بخش دیا جائے اور دوسرا یہ ہے کہ اس کے فعل کو جائز سمجھا جائے یا اس کے فعل کو پسند کیا جائے۔ پہلی بات تو درست ہوسکتی ہے لیکن دوسری بات بالکل غلط ہے۔ لہٰذا اگر یہ سنیں کہ پیغمبر یا بزرگ کی قبر پر دعا مانگنے سے کسی کی مراد پوری ہوگئی تو اس سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکالا جاسکتاکہ وہ فعل مستحسن اور قابل مدح ہے۔ کسی شخصیت کے اقوال وافعال، سنت وشریعت نہیں ہیں کہ ان کی بے چون وچرا پیروی کی جائے۔ یاد رکھیں کوئی بات بھی اس وقت تک مستحب قرار نہیں پاسکتی اور نہ دین بن سکتی ہے جب تک کہ وہ کتاب وسنت اور السابقون الاولون کے عمل سے ثابت نہ ہوجائے اور کوئی بھی بدعت مستحسن قرار نہیں دی جاسکتی، اگرچہ کبھی اس میں کوئی فائدہ نظر آتا ہو کیونکہ ہمیں یقین سے معلوم ہوچکا ہے کہ اس کے نقصانات اس کی منفعتوں اور فوائد سے زیادہ ہیں۔ دعا میں تحریم وکراہت پھر دعا سے متعلق یہ تحریم وکراہت یا تو ناروا مطلوب کی وجہ سے ہوتی ہے یا خود طلب کی وجہ سے۔ حرام مطلوب کی مثال یہ ہے کہ آدمی دانستہ یا نادانستہ ایسی ایسی دعا مانگے جو اسے دنیا یا آخرت میں نقصان پہنچانے والی ہے اور وہ قبول ہوجائے جیسا کہ اس شخص کا حال ہوا جس کی عیادت کے لیے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو اسے چوزے کی طرح سکڑا ہوا پایا، آپ
Flag Counter