Maktaba Wahhabi

166 - 259
ثابت کررہا ہے، خواہ اس دعا سے کبھی فائدہ بھی حاصل ہوجائے اور یہی دعا مطلوبہ نتائج کا سبب بن جائے۔ صوفیوں اور فلسفیوں کی نظر میں دعا پھر خود دعا کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ نام نہاد فلسفیوں اور مدعیان تصوّف میں سے ایک جماعت کا خیال ہے کہ دعا سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ جس مطلب کے لیے دعا کی جاتی ہے، وہ مشیّتِ الٰہی اور اسبابِ علوی میں یا تو مقدر ہوچکا ہوگا یا مقدر نہیں ہوا ہوگا۔ اگر مقدر ہوچکا ہے تو دعا کی کوئی ضرورت نہیں، وہ لامحالہ واقع ہوجائے گا اور اگر مقدر نہیں ہوا ہے تو دعا بے کار اور غیر مفید ہے کیونکہ وہ مطلب ہر گز حاصل نہ ہوگا۔ ایک دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ دعا مطلوب کے حصول پر بمنزلہ علامت ودلالت کے ہے۔ ان کے نزدیک دعا اور مطلوب میں وہی تعلق ہے جو دلیل اور مدلول میں ہوتا ہے، نہ کہ وہ تعلق جو سبب اور مسبب میں ہوتا ہے۔ مومنین کی نظر میں دعا لیکن صحیح مسلک جمہور کا ہے اور وہ مختصر لفظوں میں یہ ہے کہ دعا دوسرے تمام شرعی اور تقریری اسباب کی طرح مطلوب کے حصول کا سبب ہوتی ہے، خواہ دعا کو سبب کا نام دیا جائے یا جزو سبب کا، یا اسے شرط کہا جائے، مقصود ایک ہی ہے۔ اللہ جب بندے کے ساتھ بھلائی کرناچاہتا ہے تو اس کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ وہ دعا کرے اور مدد کا طالب ہو، پھر اس کی اسی دعا اور طلبِ نصرت کو اس کی بھلائی کا سبب بنادیتا ہے جو اس کے حق میں مقدر ہوچکی ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میرے ذمے صرف یہ ہے کہ دعا کروں، اس کی
Flag Counter