Maktaba Wahhabi

177 - 259
نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کردی ہے کہ قبر کو مسجد یا قبلہ قرار دیا جائے، اسی لیے علماء نے بھی ممانعت کی ہے کہ جس طرح قبر کی طرف نماز نہیں پڑھنی چاہیے اسی طرح خاص طور پر اس کے سامنے کھڑے ہوکر دعا بھی نہیں کرنی چاہیے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے تو مبسوط میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میری رائے میں مناسب نہیں کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس بھی کھڑے ہوکر دعا کی جائے بلکہ سلام کرکے فوراً چلے جانا چاہیے۔ اور غالباً اسی لیے حجرۂ نبوی کو تعمیر کے وقت ترچھا اور مثلث کردیا گیا ہے، چنانچہ اس کی شمالی دیوار قبلہ کی سمت نہیں رکھی گئی اور یہ بالکل ٹھیک ہوا ہے۔ کیونکہ دعا کرنے والے کے لیے اسی طرف رخ کرنا مستحب ہے جس طرف نماز پڑھنا مستحب ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ سمت کعبہ کو چھوڑ کر مشرق یا کسی اور سمت منہ کرکے نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا ہے، اس لیے یہ بھی روا نہیں رکھا گیا کہ آدمی اپنی دعاؤں کے لیے خاص طور پر ان ممنوع سمتوں ہی کی طرف رخ کرے۔ بدعتیوں کی دعا لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دعا کے لیے اسی سمت کو اختیار کرتے ہیں جس طرف کسی بزرگ کی قبر واقع ہو حالانکہ یہ کھلی گمراہی ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ اس سمت پیٹھ نہیں کرتے جس طرف کسی بزرگ کی قبر ہو، کعبہ اور قبر نبوی والی سمتوں کی طرف بے پروائی سے پیٹھ کردیتے ہیں۔ دراصل یہ تمام طریقے بدعت کے طریقے ہیں اور نصاریٰ کے دین سے ملتے جلتے ہیں۔ اس بارے میں علمائے امت کا اس درجہ اہتمام رہا ہے کہ انھوں نے درود وسلام میں بھی بڑی سختی سے سنت نبوی کو قائم رکھا ہے۔ تاکہ ڈھیل دینے سے کہیں یہ معاملہ مکروہ اور پھر نصارٰی
Flag Counter