Maktaba Wahhabi

181 - 259
کی بابت بھی یہی مروی ہے کہ جب وہ عراق جانے لگے تو منبر کے پاس آئے اور اس کا مسح کیا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا، شاید یہ کرنا ضرورت کے وقت ٹھیک ہے۔ اس پر ایک شخص نے کہا: لوگ قبر شریف کی دیوار سے پیٹھ لگاکر کھڑے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا: لیکن میں نے مدینہ کے اہل علم کو دیکھا ہے کہ وہ قبر کا مسح نہیں کرتے بلکہ ایک طرف کھڑے ہوکر سلام کرتے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں یہی درست ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے منبر اور رُمّانہ (جو منبر پرنبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے اور ہاتھ رکھنے کی جگہ تھی) کا مسح کرنے کی اجازت تو دی ہے مگر آپ کی قبر کا مسح کرنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے منبر کا مسح بھی مکروہ قرار دیا ہے جس طرح قبر کا مسح مکروہ ہے، لیکن اب سرے سے یہ بحث ہی اٹھ گئی ہے کیونکہ منبر جل چکا ہے اور اس کے ساتھ رمانہ بھی باقی نہیں رہا، کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے جس قدر منقول ہے وہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست گاہ کا مسح کیا تھا۔ دعا کے لیے قبروں کا انتخاب دعا کے لیے خصوصیت کے ساتھ قبروں کا قصد کرنا اس وجہ سے بھی مکروہ ہے کہ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم نے اسے ناپسند کیا ہے اور حدیث نبوی ’’میری قبر کو عید (مزار) نہ بنانا‘‘[1] کا یہی مطلب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ہم حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ اور ان کے ابن العم حضرت
Flag Counter