Maktaba Wahhabi

182 - 259
حسن بن حسن رحمہ اللہ کے اقوال سے وضاحت کرچکے ہیں۔ وہ اپنے زمانے میں سب سے افضل اہل بیت تھے اور حجرہ نبوی کے پاس رہنے والے اور اپنی رشتہ داری کی وجہ سے اس بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ نیز ہم امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے فتاوی نقل کر آئے ہیں کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبین رضی اللہ عنہما پر سلام کے بعد اگر کوئی شخص اپنے لیے دعا کرنا چاہے تو حجرے سے منہ پھیر کر قبلہ رخ ہوجائے اور دعا کرے۔ اسی طرح بہت سے متقدمین مثلاً امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ اور بہت سے متاخرین مثلاً ابو الوفا بن عقیل اور ابوالفرج بن جوزی وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم نے اسے مکروہ بتایا ہے۔ غرض میرے علم میں نہیں کہ کسی صحابی، تابعی یا کسی مشہور امام نے خاص طور پر قبروں کے پاس دعا کو مستحب بتایا ہو اور اس بارے میں نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین یا ائمہ رحمۃ اللہ علیہم سے ایک حرف بھی روایت نہیں کیا گیا۔ بہت سے علماء نے دعا اور اس کے مقامات کی بابت کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان میں تمام متعلقہ آثار جمع کردیے گئے ہیں، لیکن کسی کتاب میں ایک حرف بھی قبروں کے پاس دعا کی فضیلت کے بارے میں موجود نہیں۔ پس جب سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اس کام سے بالکل ناواقف تھے، بلکہ اس سے منع کرتے تھے پھر وہ کیونکر مستحب وافضل قرار پاسکتا ہے۔ قبروں پر دعا کب شروع ہوئی؟ بلاشبہ ہم اس طرح کی باتیں تیسری صدی ہجری کے بعض لوگوں کے کلام میں کہیں کہیں پاتے ہیں کہ فلاں شخص کی قبر کے پاس دعا قبول ہونے کی امید ہے یا فلاں شخص کی قبر کے پاس دعا کرنی چاہیے لیکن ان اقوال کے ساتھ ساتھ ان پرہمیں اعتراض بھی ملتا ہے، اس طرح کی بات کہنے والے کی بابت بہتر یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں مجتہد یا مقلد تھا، اور امید
Flag Counter