Maktaba Wahhabi

194 - 259
حفاظت دین کا ایک ذریعہ ہے۔ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ اس دین کی تائید فاجر آدمی سے بھی کراتا ہے۔‘‘[1] یہ مقام ان اوقاف کی بحث وتحقیق کا نہیں ہے۔ قبروں کے پاس اللہ کا ذکر مکروہ تو نہیں ہے لیکن خاص طور پر ذکر کے لیے قبر پر جانا مکروہ اور بدعت ہے۔ اس سے قبروں کو عید بنالینا لازم آتا ہے اور یہی حکم قبروں کے پاس روزہ رکھنے کا بھی ہے۔ پھر یاد رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں نے قبروں کے پاس تلاوت کی اجازت دی ہے انھوں نے بھی انھیں عید بنانا روا نہیں رکھا ہے، یعنی ایک مقررہ وقت میں قراء ت کے لیے وہاں جانا، جمع ہونا، ان کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ قبروں پر خیرات اسی طرح قبر پر قربانی قطعاً ممنوع ہے۔ کیونکہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام میں جانوروں کا قبر پر ذبح کرنا جائز نہیں ۔‘‘[2]یہ جاہلیت کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی قبر پر جانور ذبح کیے جاتے تھے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بالکل منع کردیا ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ذبیحے کا کھانا بھی مکروہ قرار دیا ہے، نیز ہمارے ہم مشرب علماء نے کہا ہے کہ یہی حکم اس روٹی اور غلے وغیرہ کا بھی ہے، جو ہمارے زمانے میں قبروں پر خیرات کیے جاتے ہیں۔[3]
Flag Counter