Maktaba Wahhabi

203 - 259
والے ہوں، یہ چیز اس چیز سے بالکل مختلف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں اتفاقیہ نماز پڑھ لی ہے۔ بے شک اگر اس جگہ مسجد بنانے کی ضرورت ہو تو بنائی جاسکتی ہے لیکن اس لیے نہیں کہ وہ جگہ متبرک ہے اور وہاں نماز پڑھنا کسی دوسری جگہ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ ہاں ان مقامات میں خصوصیت کے ساتھ نماز پڑھنی اور دعا کرنی چاہیے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ نماز پڑھی اور دعا کی ہے۔ لہٰذا دونوں باتوں میں فرق کرنا چاہیے۔ اوّل الذکر صورت میں بدعت ہونے کا احتمال ہے اور دوسری صورت میں اتباع سنت ہوتی ہے۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا عمل نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مقامات پر اتفاقیہ نماز پڑھی تھی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سوا کسی صحابی سے مروی نہیں کہ اس نے ان مقامات کو کسی طرح کی بھی خصوصیت دی ہو۔ چنانچہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اور تمام سابقین اولین من المہاجرین والانصار رضی اللہ عنہم ان راستوں پر حج اور عمرے وغیرہ کے لیے سفر کرتے تھے مگر کبھی ان مقامات پر خصوصیت کے ساتھ نمازنہیں پڑھتے تھے، لہٰذا اگر یہ بات ان کے نزدیک مستحب ہوتی تو وہ سب سے پہلے عمل کرنے والے ہوتے کیونکہ وہ سنت نبویہ کے سب سے زیادہ جاننے والے اور اس پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے تھے۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت اختیار کرنا، اسے خوب مضبوطی سے پکڑے رہنا۔ خبردار! نئی نئی باتیں نہ گھڑنا کیونکہ ہر نئی گھڑی ہوئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘[1]
Flag Counter