Maktaba Wahhabi

204 - 259
اور معلوم ہے کہ خلفائے راشدین نے یہ بات کبھی نہیں کی۔ لہٰذا اس فعل میں خلفاء کی سنت کی نہیں بلکہ ایک بدعت کی پیروی ہوتی ہے۔ اورصرف حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل سے استدلال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صحابی کا قول اس وقت حجت نہیں رہتا جب کوئی دوسرا صحابی اس سے اختلاف کرے اور یہاں تو صرف ایک صحابی ہیں جو تمام صحابہ سے الگ بات کہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس صورت میں ان کا فعل ہر گز حجت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ شرک کی بیخ کنی پھر ان مقامات پر خصوصیت کے ساتھ نماز پڑھنا، انھیں مساجد بنالینے اور اہل کتاب سے مشابہت پیدا کرلینے کا ذریعہ ہوسکتا ہے جبکہ ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وہ شرک کا سبب بن سکتا ہے اور شارع نے شرک کی قطعی طور پر بیخ کنی کردی ہے۔ حتیٰ کہ طلوع وغروب کے وقت نماز پڑھنے[1] اور قبروں کو مسجد قرار دینے سے[2] بھی منع کردیا ہے۔ ظاہر ہے اگر ایسے اوقات ومقامات میں نماز پڑھنے سے منع کردیا ہے تو پھر خصوصیت کے ساتھ ایسے مقامات پر دعا ونماز کیونکر مستحب ہوسکتی ہے جہاں انبیاء وصالحین نے محض اتفاقیہ دعا وعبادت کی تھی؟ اور اگر یہ مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ غار حرا اور جبل ثور میں بھی خصوصیت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ نیز یہی حکم باقی تمام ایسے مقامات کا بھی ہوجائے گا جہاں بیان کیا جاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے آثار موجود ہیں۔ مثلاً دمشق کے جبل قاسیون پر وہ دو مقامات جو
Flag Counter