Maktaba Wahhabi

218 - 259
فصل 20 مسجد اقصیٰ مسجد اقصیٰ، ان تین مسجدوں میں سے ایک ہے، جن کے لیے شدرحال یعنی سفر کرنا چاہیے۔ فتح بیت المقدس کے وقت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس گئے تو انھوں نے صخرے پر کوڑے کا انبار دیکھا۔ جسے عیسائیوں نے یہودیوں کی عداوت میں وہاں ڈھیر کر رکھا تھا،کیونکہ یہودی صخرے کی تعظیم کرتے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے میں کوڑا اٹھاکر پھینکا اور آپ کو دیکھ کر تمام مسلمانوں نے اسے صاف کرنا شروع کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے انباطی مزدوروں سے اسے صاف کرایا تھا۔ بہرحال اسے صاف کرکے آپ نے اپنی مسجد بنائی۔ لیکن مسجد اقصیٰ کو ’’حرم‘‘ نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ حرم صرف مکہ اور مدینہ ہی کے لیے خاص ہے۔ نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بزرگی صرف مسجد اقصیٰ کی ہے نہ کہ صخرے کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے صخرے کے پاس نماز پڑھی نہ اس کا مسح کیااور نہ اس کو بوسہ دیا۔ مسجد نبوی اور مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ سے بالاجماع افضل ہیں، لیکن حجر اسود کے سوا ان دونوں مسجدوں میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں جسے بوسہ دینا یاتبرک کے لیے ہاتھ سے چھونا مشروع ہو (سوائے بیت اللہ کے کونوں کے)، لہٰذا مسجد اقصیٰ کو کیونکر کوئی ایسی خصوصیت حاصل ہوسکتی ہے جو ان دونوں مسجدوں کو حاصل نہیں۔
Flag Counter