Maktaba Wahhabi

219 - 259
صخرے پر تعمیر صخرے پر پہلے کوئی عمارت نہ تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد حکام اور علماء میں سے کوئی بھی، اسے کسی عبادت کے لیے مخصوص نہیں کرتا تھا۔ صخرہ اسی طرح خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم پھرحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید اور معاویہ بن یزید کے زمانے تک کھلا رہا۔ یہاں تک کہ عبدالملک بن مروان کی حکومت شروع ہوئی۔ اس وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بڑا زور تھا۔ لوگ حج کے لیے مکہ جاتے تھے اورحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ان کی ہمدردی بڑھتی جاتی تھی، لہٰذا عبدالملک نے لوگوں کو کعبہ سے روکنے کے لیے صخرے پر قبہ تعمیر کیا اور اس پر غلاف چڑھایا، جو ہمیشہ چڑھا رہتا تھا۔ اس وقت مسلمانوں میں صخرے اور بیت المقدس کی اتنی تعظیم پھیل گئی، جو پہلے انھیں معلوم نہ تھی۔ بعض لوگوں نے اس تعظیم کے بارے میں بہت سی اسرائیلیات نقل کردی ہیں، حتیٰ کہ عبدالملک کے دربار میں کعب احبار رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا کہ اللہ نے صخرے سے کہا کہ تو میرا عرش ادنیٰ ہے۔ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ موجود تھے، انھوں نے اعتراض کیا کہ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: ﴿وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ﴾[1] اور تو کہتا ہے کہ صخرہ اس کا عرش ہے۔ کعب احبار رحمہ اللہ بعض لوگوں نے بیت المقدس اور ان کی طرح دیگر مقامات کے فضائل میں کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان میں اہل کتاب کی روایتیں جمع کردی ہیں، حالانکہ ان روایتوں پر مسلمان اپنے دین میں ذرا بھی بھروسا نہیں کرسکتے۔ جن لوگوں سے اسرائیلیات روایت کی جاتی ہیں، ان
Flag Counter