Maktaba Wahhabi

39 - 259
فصل 3 بدعت بدعت ہمیشہ مکروہ ہی ہوتی ہے۔ یہ ایک عام قاعدہ اور اصول ہے لیکن بعض لوگوں نے بدعت کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، حسنہ اور سیّئہ۔ اوربطورِ دلیل،نماز تراویح کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول پیش کرتے ہیں کہ ’’نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہٖ‘‘[1] (یہ کس قدر اچھی بدعت ہے۔) نیز ایسے اقوال و افعال پیش کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عمل میں آئے، مگر مکروہ نہیں سمجھے گئے، بلکہ اجماع یا قیاس کی رو سے مستحسن قرار دیے گئے ہیں۔ بعض ناقص علم والے اسی سلسلے میں لوگوں کی بہت سی عادتیں بھی داخل کردیتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں کہ بعض بدعتیں حسنہ بھی ہوتی ہیں اس لیے کہ وہ یا تو اپنی عادت اوراپنی جان پہچان والے لوگوں کی عادت کو اجماع قرار دے دیتے ہیں خواہ انھیں باقی تمام مسلمانوں کے فیصلے کا علم نہ بھی ہو، اور یا اس لیے کہ اپنی عادت کی وجہ سے اس کام کا چھوڑنا منکرسمجھتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بعض لوگوں کی نسبت فرمایا گیا ہے: ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللّٰهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾ ’’اورجب ان سے کہاجاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام اور رسول کی طرف رجوع
Flag Counter