رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی موجود تھی مگر اسے آپ نے کسی خاص مانع کی بنا پر چھوڑدیا، جو آپ کی وفات سے دور ہوگیا تو اس فعل کا اختیار کرنا بھی جائز ہے لیکن اگر ضروری سبب اور وجہ نہ ہو، یا وہ سبب خود لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہو تو اس کا اختیار کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ پھر اگر کسی فعل کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھی اس ضرورت کے باوجود اسے آپ نے ترک کردیا، تو سمجھ لینا چاہیے کہ آپ نے اس کی ضرورت تسلیم نہیں کی لہٰذا وہ سرے سے مصلحت ہی نہیں ہے۔ البتہ جس فعل کی ضرورت آپ کے بعد پیدا ہوئی اور اس کی علت وسبب، مخلوق کی معصیت نہ ہو تو وہ فعل مفید ہوسکتا ہے اور اس میں مصلحت کا امکان موجود ہے۔ فقہاء کے دو مسلک اس بارے میں فقہا کے دو مسلک ہیں، ایک یہ کہ جس بات کی مخالفت وارد نہیں وہ جائز ہے، یہ ان لوگوں کا مسلک ہے جو مصالح مرسلہ کے قائل ہیں۔ دوسرا مسلک یہ ہے کہ وہی عمل کرنا چاہیے جس کاحکم دیا گیا ہے۔ یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو مصالح مرسلہ کی بنا پر احکام کا ثبوت تسلیم نہیں کرتے۔ پھر اس آخر الذکر فریق میں مزید دو گروہ ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ وہی بات ثابت ہے جو شارع کے قول، فعل یا اقرار سے صراحتاً منقول ہو۔ یہ لوگ قیاس کے منکر ہیں۔ دوسرا گروہ احکام کو شارع علیہ السلام کے الفاظ اور ان کے مفہوم سے بھی ثابت کرتا ہے۔ یہ لوگ قیاس کے قائل ہیں۔ علمائے سوء اور گمراہ صوفی بہر حال جس فعل کی ضرورت عہد نبوی میں موجود تھی، مگر آپ نے اسے مشروع قرار نہیں |
Book Name | فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے |
Writer | شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ |
Publisher | دار السلام |
Publish Year | 2007 |
Translator | مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی |
Volume | |
Number of Pages | 259 |
Introduction |