Maktaba Wahhabi

57 - 259
اس لیے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی طریقوں کے اجرا میں انھوں نے کوتاہی کی۔ اگر وہ حدودِ شرعیہ قائم کرتے، امیر وغریب اور قریب وبعید کااس بارے میں امتیاز نہ کرتے اور عدل الٰہی کا اجرا ہر چیز پر مقدم رکھتے تو یہ بدعتیں جاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ طرح طرح کے ظالمانہ محصول، ناروا سزائیں، اپنی حفاظت کے لیے غلاموں اور سپاہیوں کے لشکر وغیرہ کچھ بھی نہ کرنا پڑتا۔ جیسا کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ، عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور بعض دوسرے عادل حکام کا حال تھا۔ کتاب اللہ سے علماء کی دوری اسی طرح اگر کتاب اللہ کو اپنا رہبر مانتے، اس کی ان آیات بیّنات کا تفقُّہ حاصل کرتے جو اللہ تعالیٰ کی حجتیں ہیں، ان کی ہدایت اور رہنمائی جو علم نافع اور عملِ صالح کی صورت میں ہے، اس پر غورکرتے، حکمت الٰہی کو قائم کرتے جسے اللہ نے اپنے رسول کودے کر بھیجا اور جو سنت نبوی ہے، اگر علماء ان صفات کو اختیار کرتے ، تو یقینا انھیں کتاب اللہ میں گوناگوں علومِ نافعہ کے سرچشمے مل جاتے، جو تمام علوم پر حاوی ہوتے اور تب انھیں حق وباطل میں تمیز کی قدرت حاصل ہوجاتی اوراس آیت: ﴿ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ ’’اسی طرح ہم نے تمھیں درمیانی امت بنادیا۔ (جس میں کوئی افراط وتفریط نہیں) تاکہ تم سب لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘ [1] اس آیت کے مطابق تمام مخلوق پر شاہد بن جاتے۔ نیز ان تمام فاسد دلائل سے مستغنی ہوجاتے جن سے اصحابِ کلام کے زعم میں دین الٰہی کی تائید ہوتی ہے اور ان فاسد آرا سے
Flag Counter