Maktaba Wahhabi

65 - 259
اگر نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم تابعین اور جملہ ائمہ رحمۃ اللہ علیہم اس بات سے ناواقف تھے تو ہمارے لیے کیسے ممکن ہے کہ ہمیں اس کا علم ہوگیا ہو۔ تقرب اِلی اللہ کے جس ذریعے کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور ائمہ رحمۃ اللہ علیہم کو حاصل نہ تھا وہ بھلا ہمیں کیونکر حاصل ہوسکتا ہے؟ اگر کہا جائے کہ انھیں اس بات کا علم تھا، تو اسے بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عمل صالح کے لیے ان کی سرگرمیاں اور لوگوں کی تعلیم ونصیحت کے لیے ان کے ولولے دیکھتے ہوئے ہرگز گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ علم رکھنے کے باوجود کسی ایک شخص کو بھی اس سے آشنا نہ کرسکے اور خود ان میں سے کوئی ایک متنفس بھی اس پر کبھی عمل نہ کرسکا۔ جب فضیلت وثواب کا یہ دعویٰ دینی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور خیر القرون کے علم کی نفی کو مستلزم ہے، یا یہ دعویٰ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے اسے چھپائے رکھا یا ترک کردیا تھا۔ حالانکہ ان کی شریعت دوستی اور عادت کا تقاضا تھا کہ وہ اسے نہ چھپاتے اور نہ ترک کرتے، تو ظاہر ہے اس کا معاملہ کس درجہ سخت ہوجاتا ہے؟ کیونکہ یہ دونوں باتیں (عدمِ علم یاکتمانِ علم) بالکل غلط اور خلاف واقع ہیں۔ اگر یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں تو پھر وہ دعویٰ بھی باطل ہوجاتا ہے جس سے یہ دونوں باتیں لازم آتی ہیں۔ بدعت کے ساتھ باطل اعتقاد ضرور ہوتا ہے پھر یہ بدعتی کسی نہ کسی باطل اعتقاد کو لازم قرار دیتا ہے جو دین میں گمراہی کا باعث ہے یا غیر اللہ کے لیے عمل کو ضروری ٹھہراتا ہے اور یہ دونوں ناجائز ہیں۔ تمام بدعتوں کا یہی حال ہے کہ وہ ضرور کوئی نہ کوئی ایسا فعل اپنے ساتھ لاتی ہیں جو ناجائز ہوتا ہے، اگر وہ حرام نہ بھی ہو تو کم ازکم کراہت سے خالی نہیں ہوتیں۔ پھر اس اعتقاد کے ساتھ دل میں طرح طرح کے احوال پیدا ہوجاتے ہیں، غلط تعظیم واجلال
Flag Counter