Maktaba Wahhabi

72 - 259
ضروری ہے بلکہ اس دن اور اس رات کو باقی تمام دنوں اور راتوں کی طرح سمجھنا چاہیے اور ان کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے کوئی تخصیص یا امتیاز پیدا ہو۔ اسی طرح رجب کے وسط میں ایک دن کی تعظیم کی جاتی ہے اور اس میں خاص نماز پڑھی جاتی ہے جسے ’’صلاۃ ام داود‘‘ کہتے ہیں، حالانکہ اس دن کی بھی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ (2) ایسے دن کی تعظیم جس میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا مگر اس کی وجہ سے اس دن کو کوئی خصوصیت یا فضیلت حاصل نہیں ہوئی، کیونکہ اس جیسے واقعات دوسرے دنوں میں بھی پیش آچکے ہیں۔ مثلاً… عید غدیر خم اٹھارہ ذی الحجہ دس ہجری کو نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپس آتے ہوئے ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ دیا تھا اور خطبہ میں کتاب اللہ کی اتباع کی وصیت کی تھی، نیز اپنے اہل بیت کے متعلق بھی وصیت کی تھی۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔[1] لیکن بعض لوگوں نے اس میں طرح طرح کے اضافے کر دیے ہیں حتیٰ کہ یہ دعوی کر بیٹھے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کا واضح طور پر حکم دیا تھا اور انھیں بلند جگہ پر بٹھایا تھا لیکن بعد میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے ساز باز کرکے یہ وصیّت چھپا ڈالی، وصی کا حق غصب کر لیا اور فسق وکفر میں پڑ گئے! حالانکہ اگر اس طرح کی کوئی بات ہوئی ہوتی تو اس کا چھپانا ناممکن تھا۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی دیانتداری اور ایمانداری دیکھتے ہوئے ایک لمحے بھی تصور نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے ایسا کیا ہو۔
Flag Counter