Maktaba Wahhabi

84 - 259
دستور تھا کہ جب کبھی جمع ہوجاتے تھے تو کسی ایک کو قرآن پڑھنے کے لیے کہتے تھے اور سب سنتے تھے۔ کتاب اللہ کی تدریس وتلاوت کرنے والوں اور ذکر الٰہی میں مشغول ہونے والوں کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں اور مشہور ہیں۔ مثلاً نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کتاب اللہ کی تلاوت وتدریس کرتے ہیں تو رحمت ان پر چھا جاتی ہے۔ سکینت نازل ہوتی ہے، فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے حضور میں کرتا ہے۔‘‘[1] اجتماع کب جائز ہے؟ البتہ اس طرح کے کسی اجتماع کو باضابطہ مقرر کرلینا اور ہفتوں، مہینوں یا برسوں کی قید کے ساتھ انھیں معین اوقات میں منعقد کرنا مناسب نہیں، کیونکہ اس صورت میں وہ فرض نمازوں، جمعہ، عیدین اور حج کے اجتماعوں کے مشابہ ہوجاتے ہیں۔ پس اس فرق کو یاد رکھیں، کسی مباح بات کو ایک سنت وعادت قرار دے لینا روا نہیں لیکن اگر اسے سنت وعادت بنائے بغیر کبھی کبھار کیا جائے تو روا ہے۔ امام احمد اور دوسرے ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم کی بھی یہی رائے ہے، چنانچہ ابوبکر رحمہ اللہ نے ’’کتاب الأدب‘‘ میں اسحاق بن منصور رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا: ’’کیا یہ مکروہ ہے کہ لوگ جمع ہوں اور ہاتھ اٹھاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’میرے خیال میں یہ مکروہ نہیں بشرطیکہ لوگ قصد و ارادے کے ساتھ جمع نہ ہوں اور اسے عادت وسنت نہ بنالیں۔‘‘ اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا یہی
Flag Counter