Maktaba Wahhabi

35 - 69
منشاء قرآن اور سنت صحیحہ ہے اور اسی پر امام نووی وابن المنذر وغیرہ نے اجماع نقل کیا ہے۔ کما فی نیل الاوطار۔ موصوف اسی حرکت سے دشمن سنت کے ساتھ ساتھ محرف قرآن بھی قرار پاتے ہیں۔کیا موصوف کے ہاں ایام حیض میں ہم بستری بھی جائز ہے؟ نعوذ باللّٰه من ذلک۔ اگر ہاں تو دلیل کیا ہے؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟ یاد رہے اگر قرآن کا حوالہ دیں گے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان ایام میں عورت معنوی طور پر ناپاک ہوتی ہے اور جب یہ ثابت ہو جائے گا تو حکم نمازخود قرآن کی روشنی میں اس سے منتفی ہو جائے گا۔ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ جناب چونکہ آج کل کٹر حنفی دیوبندی بنے ہوئے ہیں اسی لئے وہ نادانستہ طور پر اپنے اکابر جناب اشرف علی تھانوی کے نقش قدم پر چل گئے ہیں۔ جنہوں نے لکھا تھا کہ اگر دوران پیدائش بچہ ،عورت ہوش میں ہو تو اس پر اس حالت میں بھی نماز فرض ہے۔ (بہشتی زیور)۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس قسم کے فتنوں کے ظہور کا پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا۔(دیکھئے ارواء الغلیل جلد نمبر۱) موصوف عورتوں کی (خود اپنے زعم میں) توہین برداشت نہیں کرسکتے مگر افسوس کہ انہیں بیسیوں حدیثوں کا انکار کرکے جہنم و کفر کی دلدل میں جانا منظور ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آخر میں جناب نے بلاوجہ بخاری شریف کا حوالہ دے کر (کہ نماز ہر حالت میں پڑھنی ہے) اپنی کتاب کا وزن بڑھایا ہے۔ کیونکہ سیدھی سی بات ہے کہ اگر صحیح بخاری کی احادیث حجت ہیں تو ساری ہی حجت ہیں اور ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جنہیں حائضہ کے منع صیا م و صلاة کا ذکر ہے۔ اور اگر حجت نہیں ہیں تو پھر ان کا حوالہ لکھنا فضول ہے۔یا پھر جناب پہلے ان حدیثوں میں چھانٹی کر کے (اپنے خود ساختہ اصول پر) حجت و قابل عمل حدیثوں کو نا قابل حجت و عمل حدیثوں سے علیحدہ کرلیں اور ایک کتاب ترتیب دلوا لیں۔ (کیونکہ خود جس طرح سرقہ سے کام لیتے ہیں وہ ہمیں معلوم ہے)۔اور پھر ذرا انکار حدیث کے میدان میں اتریں۔ ہم منتظر رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔
Flag Counter