Maktaba Wahhabi

38 - 69
جو مثالیں جناب نے بیان کی ہیں ان سب میں ضرب کا اصل معنی مارنا ہی ہے تفصیل امہات التفاسیر کی کتب میں دیکھیں۔ جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضرب سے مراد ایسی ضرب ہے جو سخت تکلیف پر مبنی نہ ہو۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔سیدنا ایوب علیہ السلام کے قصہ میں بھی خذ بیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث وارد ہوا ہے جس کا معنی ضرب کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔ (دیکھئے سورة ص بمع تفسیر) احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ فقط تأدیبی ضرب ہے اور بس۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے کہ عورتوں کو مارنا مکروہ ہے اور پھر سورة نساء کی آیت واضربو ھن کی تفسیر ضرباً غیر مبرح سے کی ہے اور پھر اس باب کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کیا ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے ۔ (کتاب النکاح) اس سے بھی تادیبی ضرب ہی ثابت ہوتی ہے اور یہی شریعت کا منشاء ہے ۔جناب نے جو کچھ لکھاہے وہ قرآن و سنت کے منافی ہے۔اگر موصوف حدیث ہی سے استدلال کرکے تادیبی ضرب کے خلاف لکھ سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ قرآن و سنت اور اجماع امت سے تادیبی ضرب کیوں ثابت نہیں ہوتی۔ فافھم۔ شبہ کنیز لکھتے ہیں! اس شبہ میں عورت کو باندی اور لونڈی ثابت کیا گیا ہے جو کہ تذلیل و تحقیر کی سنگین ترین شکل ہے۔ مگر کاش بات یہاں تک رک جاتی لیکن شریعت کی تمام حدیں پارکرکے دین اسلام پر ناقابل معافی عظیم بہتان لگایا کہ لونڈی، باندی یا کنیز کے ساتھ جنسی تعلق بغیر نکاح کے جائز ہے۔ یعنی زناکوجائز قرار دے دینا۔ جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں: کتاب و سنت کی روشنی میں مرد و عورت کا جنسی تعلق صرف نکاح کے بعد ہی جائز ہے اس کے علاوہ کسی حال میں بھی جائز نہیں، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس ناجائز عمل کو جائز قرار دیدیا۔ (صفحہ:۱۰۱)۔
Flag Counter