Maktaba Wahhabi

46 - 69
دارالاسلام میں ہوا ہو، کیوں کہ آیت کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ وہ ان محصنات میں شامل ہے جو حُرِّمَتْ عَلَیْکُم کے تحت آتی ہیں۔ اس لئے لا محالہ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْسے مراد وہی شادی شدہ عورتیں ہوں گی جن کے نکاح دارالحرب میں ہوئے ہوں اور پھر وہ جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ رہی ان کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل ، تو وہ یہ ہے کہ اول تو مذکورہ بالا آیت میں جن شادی شدہ عورتوں کو حرام کیا گیا ہے، ان سے وہ عورتیں مستثنیٰ کردی گئی ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ پھر ا س کے بعد فرمایا: ﴿ وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَط ﴾ اور حلال کیا گیا تمہارے لیے ان کے سوا دوسری عورتوں کو اس طور پر کہ تم ان کو اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو، قید نکاح میں لانے والے بن کر، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرتے ہوئے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملک یمین میں آئی ہوئی عورتوں کو مہر دے کر نکاح میں لانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس کے بغیر ہی حلال ہیں۔ اس معنی پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے: ﴿قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خٰشِعُوْنَ … وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِھِمْ اوْ مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ﴾ فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں… اور جو اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے، کیونکہ بیویوں اور لونڈیوں سے محفوظ نہ رکھنے پر وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ (سورہ المومنون آیات نمبر ۱ ۔ ۶) اس آیت میں اہل ایمان کے لئے دو قسم کی عورتوں سے تعلق شہوانی کو جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک ان کی ازواج۔ دوسرے مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ ازواج سے مراد تو ظاہر ہے کہ منکوحہ بیویاں ہیں۔ اب اگر مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ بھی منکوحہ بیویاں ہی ہوں تو ان کا ازواج سے الگ ذکر سراسرفضول ٹھہرتا ہے۔ لا محالہ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سے محض ملک یمین کی بنا پر تمتع جائزہے۔(بحوالہ رسائل و مسائل: ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ء)
Flag Counter