Maktaba Wahhabi

69 - 69
شریعت مطہرہ میں تو ایک عورت کو اپنے شوہر کی کامل مکمل اطاعت و فرمانبرداری کا پابندکیاگیاہے۔ قرآن مجید میں فان اطعنکم اور حدیث نبوی میں طاعت بعلھااسی امر کی نشاندہی ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ عورت کو اعتراض و سوال وغیرہ کی قطعاً اجازت نہیں تو یہ بھی جناب کی ابلیسی تلبیس ہے ۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی بھی بات وارد نہیں ہوئی، اگر بعض الناس یہ کہتے ہیں توان سے دلیل مانگی جائے اور پھر اس دلیل کو محدثین کے قائم کردہ اصول پر پرکھ کر حکم لگادیا جائے نہ کہ اپنی طرف سے کسی روایت کو جھوٹی کہہ کر عداوت و دشمنی رسول کا اظہار کیا جائے۔قرآن و سنت اور تفاسیر و تواریخ میں ایسے بہت سے آثار موجود ہیں جن میں عورتوں کا کسی مسئلہ پر اعتراض کرنا، اس کی وضاحت طلب کرنا، کسی سلسلے میں مشورہ دینا وارد ہواہے۔ کما لا یخفی علی اھل العلم و المعرفة ۔ کم از کم اگر جناب کی پچھلے شبہ میں پیش کردہ سورة احزاب کی آیت نمبر۳۵ کا شان نزول ہی دیکھ لیں تو بات سمجھ میں آجائے گی کہ عورتیں اعتراض کا حق رکھتی ہیں یا نہیں۔باقی رہا کہ دین میں زبردستی و جبر نہیں ہے تو بات تو صحیح ہے مگر یہاں جس پیرائے میں جناب نے اسے پیش کرکے آیت سے استدلال کیا ہے، وہ کلمۂ حق ارید بہ الباطل کا مصداق ہے۔ خارجیوں کی طرح جناب نے حرکت کی ہے کہ جو آیت اہل کفر و حرب کے بارے میں تھی وہ مسلمانوں پر فٹ کردی۔ شاید جناب چوری پر ہاتھ کاٹنے کو، زنا پر رجم کرنے کو، شرب خمر پر کوڑے مارے جانے کو اور دیگراسلامی تعزیرات کو جبر سے تعبیر کرتے ہوں جس طرح کہ آج نام نہاد اتحاد امت اور روشن خیالی (بے حیائی) کے داعی کہتے ہیں ،کہ یہ سزائیں زبردستی، جبرو اکراہ اور تشدد و انتہاء پسندی ہے معاذ اللّٰه جاہلیت میں عورت کا مقام جناب کے شبہات غالباً ختم ہو چکے ہیں، لہٰذا اب نئے عنوانات سے بات آگے چلا کر کتاب کا حجم بڑھا رہے ہیں۔ اس عنوان کے تحت کچھ رطب ویابس بیان کرتے کرتے ایک جگہ لکھتے ہیں! میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter