Maktaba Wahhabi

52 - 127
عمل اخزى به عند عبداللّٰه بن رواحة كان يقول ذلك بعد ان استشهد عبد اللّٰه ـ (ج۳ ص ۴۳۹) ’’اس سلسلہ میں صحابہ سے بہت آثار مروی ہیں۔ انصار میں سے سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ایک رشتہ دار یہ کہا کرتے تھے یا اللہ میں تجھ سے ایسے عمل سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ہاں شرمندہ کرے۔ یہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کی بات ہے۔‘‘ عثمانی صاحب نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا البتہ میں کہتا کہ اگر یہ حوالہ درست ہو تو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ سے پہلے ان صحابہ کرام پرمشرک ہونے کا فتویٰ داغا جانا چاہئیے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن قیم رحمہ اللہ اور سماع موتیٰ:۔ استدلال کرنے والے چونکہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی عبارتوں سے بھی استدلال کرتے ہیں اس لئے عثمانی صاحب ان کے بھی دشمن بن گئے۔ یہ استاد شاگرد ایک حد تک سماع موتیٰ کے قائل تھے مگر جس طرح وہ علم کے پہاڑ تھے دلائل کی رو سے ان کی یہ بات اتنی وزنی اور مضبوط نہیں یہ ان کی اجتہادی خطا ہے۔ گو ان کا یہ عقیدہ تھا کہ میت سلام اور تلاوت سن لیتی ہے۔ مگر وہ ان سے کسی قسم کے استمداد کو جائز نہیں رکھتے تھے۔ خود عثمانی صاحب نے ص ۲۹ پر ’’التوسل والوسیلہ‘‘ ص ۳۶ سے ا بن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک حوالہ نقل کیا ہے: وكذالك الانبياء والصالحون وان كانوا احياء في قبورهم ان قدر انهم يدعون للاحياء وان وردت به آثار فليس
Flag Counter