Maktaba Wahhabi

25 - 90
سدِّ باب والے قاعدہ اور اس حدیث کو پیشِ نظر رکھیں تو موسیقی و گانے کی قباحتیں کُھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ دوسرا قاعدہ: ایسا ہی ایک اَور قاعدہ بھی ہے کہ مسلمان حرام تو حرام،اُن چیزوں سے بھی اجتناب کرے جو کہ حلّت و حرمت واضح نہ ہونے کی وجہ سے مشتبہ ہوں،تاکہ مشتبہ امور و اشیاء میں واقع ہونے کے نتیجہ میں وہ کہیں صریح حرام میں واقع نہ ہوجائے۔ اور یہ قاعدہ بھی دراصل ’’ سدِّ باب و سدِّ ذریعہ ‘‘ والے قاعدے کی ہی ایک قسم ہے۔اور اِس قاعدے کی اصل وہ حدیث ہے جوکہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسمیں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَ الْحَرَامُ بَیِّنٌ وَ بَیْنَہُمَا أُمُوْرٌ مُشْتَبِہَاتٌ،لَا یَعْلَمُہَا کَثِیْرٌ مِنَ النّٓاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُہَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِعِرْضِہٖ وَ دِیْنِہٖ وَ مَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُہَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ۔۔۔)) ’’ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے مابین کچھ امور مشتبہہ ہیں جنکی حقیقت کو بکثرت لوگ نہیں جانتے۔لہٰذا جو شخص ان مشتبہہ امور سے بچ گیا،اس نے اپنی آبرو اور دین کو محفوظ کرلیا اور جو ان مشتبہہ امور میں مبتلا ہوگیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔۔۔‘‘ اور اس کے آگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ کی چراگاہ کی مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ اگر کوئی دوسرا شخص اس خاص چراگاہ کے قریب اپنے جانور چرائے گا تو وہ کسی بھی وقت اس چراگاہ میں جانکلیں گے۔خبردار!جس طرح ہر بادشاہ کی ایک خاص جگہ و چراگاہ ہے اُسی طرح اللہ کی چراگاہ اسکے حرام کردہ امور ہیں۔۔۔۔[1]
Flag Counter