Maktaba Wahhabi

34 - 90
﴿وَ مَا کَانَ صَلَٰوتُہُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّ تَصْدِیَۃً﴾ ’’ اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما،عطیہ،مجاہد،ضحاک،حسن بصری اور قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اَلْمُکَآئُ سے مراد سیٹیاں مارنا اور اَلتَّصْدِیَۃُ کا معنیٰ تالیاں بجانا ہے۔اہلِ لُغت نے بھی اَلْمُکَآئ ُکا معنیٰ سیٹی مارنا اور اَلتَّصْدِیَۃُ کا معنیٰ تالی بجانا ہی ذکر کیا ہے جو کہ ساز و موسیقی کی قسم ہے۔[1] غرض قرآنِ کریم کے ان پانچ مقامات سے گانے بجانے،ساز و آواز اور راگ رنگ کے حرام ہونے کا واضح پتہ چلتا ہے۔ گانے بجانے کی حُرمت:احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں گانے اور موسیقی کے حرام ہونے کا پتہ متعدد احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی چلتا ہے جن میں سے چند احادیث درجِ ذیل ہیں: پہلی حدیث: حضرت ابو عامر۔یا ابو مالک۔اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ((لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَ الْحَرِیْرَ وَ الْخَمْرَ وَ الْمَعَازِفَ۔۔۔)) ’’ میری امت میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہونگے جو شرمگاہ[زنا]،ریشم،شراب اور گانا و موسیقی کو حلال کرلیں گے۔‘‘
Flag Counter