Maktaba Wahhabi

59 - 90
اور انکے ساتھیوں اور شاگردوں نے تمام سازوں کے حرام ہونے،انہیں سننے کے معصیت و نافرمانی ہونے،اسکے موجبِ فِسق ہونے اور ایسے شخص کی شہادت و گواہی کے مردود و نامقبول ہونے کی صراحت کی ہے۔بلکہ اصحابِ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تو اس سے بھی بلیغ کلمات میں یوں لکھا ہے: (اِنَّ السِّمَاعَ فِسْقٌ وَ التَّلَذُّذُ بِہٖ کُفْرٌ)[1] ’’ سماع(قوّالی وگانا سننا)فِسق ہے اور اُس سے لطف اندوز ہونا کفر ہے۔‘‘ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے معروف دو شاگردوں میں سے قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ نے ایک ایسے گھر کے بارے میں جس سے ساز و موسیقی اور لہو و لعب کی آوازیں آرہی تھیں،کسی کو حکم دیا کہ گھر والوں کی اجازت کے بغیر ہی اس میں داخل ہوجاؤ کیونکہ منکر و برائی سے روکنا فرض ہے،اور اگر ایسی جگہوں میں بلا اجازت داخلہ جائز نہ ہوگا تو لوگ فرائض کی ادائیگی نہ کر پائیں گے،اور اگر کسی گھر کا مالک باز نہ آئے بلکہ اپنی اس حرکت پر اصرار کرے تو امام و سلطان کو چاہیٔے کہ اُسے قید و بند اور کوڑوں کی سزا دے اور چاہے تو اسے اس گھر کو چھوڑ جانے[شہر وملک بدری]کا حکم دے دے۔[2] 2۔امام مالک رحمہ اللہ اور آئمہ و فقہاء مالکیہ: امام مالک رحمہ اللہ بھی گانے بجانے کو باعث و ذریعۂ فسق و فجور قرار دیتے تھے جیسا کہ ان کے بعض آثار میں سے صحیح سند والے ایک اثر میں اسحاق بن عیسیٰ الطباع فرماتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا کہ بعض اہلِ مدینہ گانے کے بارے میں کچھ چُھوٹ دیتے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے؟امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: (اِنَّمَا یَفْعَلُہٗ عِنْدَنَا الْفُسَّاقُ)[3]
Flag Counter