Maktaba Wahhabi

92 - 90
اگر یہ دونوں باتیں پیشِ نظر رہیں تو بال کی کھال اُتارنے اور دور کی کوڑی لانے والے اس حدیث سے بانسری و غیرہ ساز بجانے کا جواز کشید کرنے کی سعیٔ نا مشکور نہ کرتے۔ تقدیرِ امم میں ساز وموسیقی کا کردار: ماہرِ عمرانیات و فلسفۂ تاریخ علّامہ ابن خلدون لکھتے ہیں: ’’ جتنی اسلامی سلطنتوں کو زوال آیا،اُن میں سے اکثر کے زوال کا سبب یہی رقص و سرود ہوا کیونکہ وہ بادشاہ شب و روز ناچ گانوں کی محفلوں میں مشغول رہتے تھے۔‘‘[1] علّامہ اقبال نے سچ ہی کہا ہے:؎ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل،طاؤس و رباب آخر ناچنے جھومنے(ڈانس کرنے)کے موجِد: امام ابن الحاج نے اپنی کتاب ’’ مدخل الشرع‘‘ میں لکھا ہے کہ ناچنے گانے اور جھومنے یا رقص و سرود کو ایجاد کرنے والے عہدِ موسیٰ علیہ السلام کے سامری اور اسکے یہودی ساتھی تھے۔سامری نے انکے لیٔے ایک بچھڑا تیار کیا جس سے ایک قسم کی آواز نکلتی تھی[2]اور وہ یہودی اس آواز پر اس بچھڑے کے گرد ناچتے اور جھومتے تھے،پس یہ ناچنا جھومنا یا رقص و ڈانس کرنا کُفّار[یہود]کی رسم ہے۔[3]
Flag Counter