Maktaba Wahhabi

40 - 49
اب احناف کس پر قیاس کریں گے؟ اور ہر گز کر بھی نہیں سکتے کیوں کہ قیاس کے لئے یہاں پر کچھ نہیں ہے اگر کیا بھی ہو گا تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے ہوں گے۔ اعاذنا اللّٰه من الافتراء علیہ اسی طرح سورۃ یوسف میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿لَقَدْکَانَ فِي قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لأِولِي الألْبَابِ﴾ (آیت ۱۱۱) ترجمہ: بیشک یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں بصیرت والوں کے لئے عبرت ہے۔ اس جگہ میں بھی اگر قیاس کا معنی لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے چھوٹے بھائی یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالا اسی طرح تم بھی اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ یہی برتاؤ کرو اور جس طرح انہوں نے یوسف علیہ السلام کو فروخت کیا تم بھی اپنے بھائیوں کو فروخت کر دو۔ اور شاید اس قیاس پر بھی احناف کا عمل نہیں ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ (فلم یستح ھؤلاء القوم أن یسموا القیاس اعتبارا (الإحکام فی اصول الأحکام ج ۲ ص ۳۸۷)کہ ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آئی قیاس کو اعتبار کا نام دیتے ہوئے ﴿إنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَولُھُمْ﴾ اس سے زیادہ تعجب کی بات تو ان کا یہ کہنا ہے کہ: لوعمل بالحدیث لانسد باب الرأی (نورالأنوار ۱۷۹) اگر ( غیر فقیہ صحابی کی) حدیث پر عمل کیا جائے تو قیاس کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں، (ولا علم أحد قط فی اللغۃ التی بھا نزل القرآن أن الإعتبار ھو القیاس) (الإحکام فی اصول الأحکام ج ۲ ص ۳۸۷) ترجمہ : آج تک کسی نے بھی نہیں جانا لغت کے اندر جس لغت میں قرآن نازل ہوا ہے کہ اعتبار کا مطلب قیاس ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی عظیم قدرت آسمان اور زمین کو بنانے میں اور جو کچھ اس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کیا ہے اس پر فکر و تدبر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ تا کہ ہم جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ایک اکیلا
Flag Counter