Maktaba Wahhabi

103 - 120
رہے تھے کہ میرے قریب آجاؤ۔ اس مفہوم کی بہت ساری حدیثیں کتب احادیث میں موجود ہیں اورایک عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتاہے کہ کسی واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب استعمال کیا جاتا ہے اورمتکلم اسے بیان کرتے وقت اپنے سامع کواس واقعے کی تفصیل سے مطلع کرنے اوراپنے بیان کو مؤکد اورمضبوط بنانے کے لیے بھی یہ انداز بیان اختیار کرتا ہے۔ضروری نہیں کہ واقعے کا تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا مشائخ طریقت سے ہو تبھی یہ انداز بیان اختیار کیا جائے،کسی بھی چشم دید واقعے کو بیان کرنے کے لیے متکلم یہ اسلوب اختیار کرسکتا ہے چاہے وہ واقعہ خوش کن ہو یا الم انگیز،اس سے متعلقہ افراد مومن ہوں یا کافر،متقی وپرہیزگار ہوں یا فاسق وبدکار،اس طرح کے واقعات کو تصورشیخ کی دلیل بنانا بالکل بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی حدیث مذکور پر حاشیہ لگاتے ہوئے ’’رفع الستر عن کیفیۃ إدخال المیت فی القبر‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’لھذا الحدیث وأمثـالہ الـواردۃ فـي الصحـاح استـنـبـطوا جـواز تصور الشیخ ولہ وجہ لکنہ لایفحم المناظر‘‘[1] یعنی اس حدیث سے اوراس جیسی دوسری احادیث سے جو صحاح میں آئی ہیں لوگوں نے تصور شیخ کے جواز کا استنباط کیاہے،یہ ایک طریقہ استدلال ضرور ہے لیکن بحث وتدقیق کرنے والے(مناظر)کو خاموش نہیں کرسکتا۔ گویا لکھنوی صاحب نے بھی اس قسم کی احادیث کو تصور شیخ کا مستدل بنانے پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کردیا ہے کیوں کہ مسئلہ مذکور ہ پر ان احادیث سے استدلال میں کوئی دم خم نہیں ہے۔ تصور شیخ کی مشروعیت پرایک عجیب وغریب قسم کی دلیل: ’’ارواح ثلاثہ ‘‘ معروف بہ ’’حکایات اولیاء ‘‘ میں تصور شیخ کے جواز پرا یک عقیدت
Flag Counter