Maktaba Wahhabi

16 - 120
ہے۔سطور ذیل میں ان آداب وہدایات میں سے چند کا تذکرہ اجمالاً کیا جارہا ہے تا کہ قارئین اندازہ لگا سکیں کہ ہر دور میں تصوف کیوں ایک مختلف فیہ موضوع بنا رہا ہے اور اہل علم کا ایک بڑا طبقہ اسے کیوں شک وشبہے کی نظر سے دیکھتا آرہا ہے۔ توحید شیخ عنوان پڑھ کر یقینا آپ چونک گئے ہوں گے کہ اب تک تو توحید کی تین قسمیں جانی جاتی تھیں یعنی(۱)توحید الوہیت(۲)توحید ربوبیت(۳)توحید الاسماء والصفات۔ مگر توحید شیخ کی یہ اصطلاح توحید کی چوتھی قسم بن کر کب سے اسلام میں داخل ہوگئی،حقیقت یہ ہے کہ توحید شیخ کے الفاظ یا یہ اصطلاح شاید آپ کو صوفیہ کی اصطلاحات میں ان الفاظ کے ساتھ نہ مل سکے،مگر شیخ کے لیے جو آداب وضع کیے گئے اور شیخ کے ساتھ مرید کے تعلق کی جو نوعیت ذکر کی گئی ہے اسی سے یہ عنوان مترشح ہوتا ہے کیوں کہ اہل تصوف نے مرید کو بڑے سخت الفاظ میں یہ تاکید کی ہے کہ کسی ایک ہی پیر سے وہ متعلق رہے اور اسی کو اپنا مقصود ومطلوب سمجھے،کسی دوسرے پیر سے بیعت وارادت تو کجا اس کا تصور بھی گناہ ہے،ایسا سوچنے یا کرنے والا مطرود ومسلوب ہو کر رہ جاتا ہے اور ہدایت وعرفان کا دروازہ اس پر ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے،سہروردی صاحب ’’عوارف المعارف‘‘ میں ’’آداب المرید مع الشیخ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’ادب کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی مرید کسی شیخ کی صحبت میں اس وقت تک نہ داخل ہو جب تک اس کو یقین نہ ہو جائے کہ شیخ ہی اس کی تہذیب و تربیت کے ذمہ دار اور نگراں ہیں اور کسی دوسرے شیخ کے مقابل تادیب کے معاملے میں زیادہ راست ہیں اور اگر مرید کی نگاہ کسی دوسرے شیخ کی طر ف بھی ہو تو ایسی صورت میں اس کی صحبت صافی نہیں ہو گی اور نہ اس شیخ کی بات اس میں سما سکتی ہے اور نہ اس کا باطن شیخ کے احوال کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھے گا،کیوں کہ جب مرید شیخ کی انفرادیت کا یقین کر لے گا تبھی اس کے فضل کو پہچان سکے گا اور اس کی محبت پائدار ہو گی۔‘‘ [1]
Flag Counter