Maktaba Wahhabi

27 - 120
اسی طرح ایک بزرگ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’…تمہارے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ خدا علٰحدہ چیزہے اور پیر علٰحدہ ہے،جب تک تم اس وسوسہ کو نہ نکالو گے اور پیر کو عین ذات تصور نہ کروگے کچھ نہ بنے گا(بیٹا کہتا ہے)مجھے انکار،ان کو اصرار کہ نہیں ہم جو کہہ رہے ہیں طریقت کا مسئلہ یہی ہے،ہم غیروں کو نہیں سمجھا رہے ہیں،میں نے کہا پھر شرک اور کیا ہے،فرمایا شریعت کے مطابق تو تم شرک سمجھتے ہو مگر حقیقت یہ ہے،ظاہر میں تو انسان کو شریعت کا ہی پابند ہونا چاہیے،شریعت میں پیر کو پیر اور خدا کو خدا ہی کہنا چاہیے،مگر طریقت میں دونوں ایک ہیں،بیٹا ہماری بات کو مان لو،ہم کامل بزرگوں کی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔‘‘ [1] شیخ اور مقام نبوت اہل تصوف جب پیروں اور ولیوں کو خدائی صفات و خصائص سے متصف کرسکتے ہیں،بلکہ اس سے بھی ان کے درجات بلند کر سکتے ہیں تو پھر انبیاء و رسل کا مقام و مرتبہ اپنے اولیاء کے لیے ثابت کرنے میں انہیں کیا تردد ہو سکتا ہے،اس تعلق سے بھی ان کی ہدایات اور تصریحات کچھ زیادہ ہی مبالغہ آمیزاور افراط وغلو پر مشتمل ہیں،چنانچہ شیخ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے تقریباً جملہ صوفیائے کرام ایک من گھڑت حدیث پیش کرتے ہیں: ’’الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ‘‘[2] یعنی قوم میں شیخ کی وہی حیثیت ہے جو امت میں نبی کی۔ جب شیخ نبی کے ہم رتبہ ہوگئے تو اس کا لازمی نتیجہ وہی نکلا جس کی صراحت صاحب فوائد الفواد نے ان الفاظ میں کی ہے: ’’شیخ کا فرمان رسول خدا کے فرمان کے مانند ہوتا ہے‘‘[3] اسی پر بس نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی صفات سے شیخ کو متصف کیا
Flag Counter