Maktaba Wahhabi

65 - 120
صرف اللہ ہی باقی رہ جاتا ہے،پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منھ پھیر لیتے ہو،انسان بڑاہی ناشکرا ہے‘‘ ایک جگہ فرمایا: ﴿وَإِذَا غَشِیَہُم مَّوْجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾[1] ’’اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھاجاتی ہیں تو وہ نہایت خلوص کے ساتھ اعتقادکرکے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو‘‘ یہی وجہ تھی کہ حضرت عکرمہ بن ابو جہل سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ہماری مشرکانہ زندگی کی یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ مصیبت کے وقت میں تواللہ کو پکاریں اور مصیبت سے نکلنے کے بعد بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں،چنانچہ یہیں سے ان کی زندگی میں انقلاب آیا۔سیرت نگاروں نے حضرت عکرمہ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ مکہ سے فرار ہوکر ایک کشتی پر سوار ہوئے،جب کشتی چلی تو اسے طغیانی کا سامنا کرنا پڑا،کشتی والوں نے کہا کہ اخلاص کے ساتھ(یعنی اپنے معبودوں سے صرف نظر کرکے صرف اور صرف)اللہ کو پکارو کیوں کہ تمہارے معبود یہاں کوئی کام نہیں آسکتے،حضرت عکرمہ نے جب یہ بات سنی تو کہا کہ اگر اس سمندرمیں اور طغیانی میں اخلاص اور مولائے واحد کی عبادت ہی بچا سکتی ہے تو سمندر کے باہر کوئی دوسرا کیسے بچا سکتا ہے،اے اللہ!میرا یہ عہد ہے کہ اگر اس طغیانی سے تو نے مجھے نجات دے دی تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دوں گا،مجھے امید ہے کہ آپ کو درگذر کرنے والا اور سخی پاؤں گا۔اور ہوا بھی یہی کہ سمندر سے بسلامت باہر آنے کے بعد حضرت عکرمہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔[2] کائنات میں اولیاء ومشائخ کا تصرف گذشتہ صفحات میں اولیاء ومشائخ سے مبنی بر مبالغہ عقیدت اور استغاثہ واستمداد کی
Flag Counter