Maktaba Wahhabi

72 - 120
وہ مشرک ہوجاتا ہے اور اس کو ’’اشراک في التصرف‘‘ کہتے ہیں یعنی اللہ کا سا تصرف ثابت کرنا محض شرک ہے،پھر خواہ یوں سمجھے کہ ان کاموں کی طاقت ان کو خود بخود ہے خواہ یوں سمجھے کہ اللہ نے ان کو ایسی طاقت بخشی ہے ہر طرح شرک ثابت ہوتا ہے۔‘‘ [1] اس فقرے میں شاہ صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور آخری سطور میں اولیاء کے لیے ’’عطائی‘‘ علم کی اصطلاح کا سہارا لینے والوں کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔تقویۃ الایمان میں متفرق مقامات پر اس سلسلے میں بڑی مفید بحثیں موجود ہیں جن کا مطالعہ یقینا سود مند ہوگا،اختصار کے پیش نظر یہاں اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی: مولانا اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ’’تعلیم الدین‘‘ میں اقسام شرک کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’إشراک في العلم:کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کوہر وقت خبر ہے،نجومی،پنڈت سے،غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام سے فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہوگئی،کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔ إشراک في التصرف:کسی کو نفع نقصان کا مختار سمجھنا،کسی سے مرادیں مانگنا،روزی اولاد مانگنا۔‘‘ [2] تھانوی صاحب نے بوادر النوادر میں ’’تصرف‘‘ کے مسئلہ میں لکھا ہے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل صحیح کے ساتھ یہ منقول ہے کہ آپ نے بعض لوگوں کے سینوں پر ہاتھ مارا جس سے ان کا وسوسہ جاتا رہا اور بعض بیماروں کے بدن پر دست مبارک پھیرا جس سے ان کا مرض جاتا رہا اس سے بعض لوگوں کو یہ وہم ہوگیا کہ آپ نے تصرف کا استعمال فرمایا اور کچھ زیادہ بعید نہیں کہ اس قسم کی روایات سے کوئی شخص استعمال تصرف سے
Flag Counter