Maktaba Wahhabi

83 - 120
وآخرت رانیزگویند وگفتہ اند کہ شیخ اکبر را برزخ ا لبرازخ خوانند …وگفتہ اند صورت محسوسہ مرشد رابرزخ گویند کہ ذاکر دروقت ذکر گفتن صورت مرشد رادرچشم دارد ‘‘[1] مولانا شاہ اسمٰعیل دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس عمل کی تردید فرمانے سے پہلے اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔اورشغل مذکور کی صورت یہ ہے کہ وسوسوں کے دورکرنے اورارادے جمع ہونے کے لیے پوری تعیین اورتشخیص کے ساتھ شیخ کی صورت کو خیال میں حاضر کرتے ہیں اورخود نہایت ادب اورتعظیم اپنی ساری ہمت سے اس صورت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں گویا بڑے ادب اورتعظیم کے ساتھ شیخ کے روبرو بیٹھتے ہیں اوردل کو بالکل اسی کی طرف متوجہ کرلیتے ہیں ‘‘[2] ایک صوفی مصنف ’’تصورشیخ ‘‘ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ یہ ذکر کا ایک مستقل طریقہ ہے جو مرید کو واصل کے درجہ تک پہونچا دیتا ہے اوریہ عبارت ہے مقام مشاہدہ تک پہنچے ہوئے اورصفات ذاتیہ سے متصف شیخ سے دل کو جوڑنے اوراس کی صورت اپنے ذہن میں محفوظ کرنے سے،اگر چہ اس کی غیر موجودگی ہی میں کیوں نہ ہو‘‘۔[3] اہمیت وفضیلت: ’’تصورشیخ ‘‘ کی اہمیت اورفضیلت پر مؤلفین نے اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مشائخ چشتیہ کے حوالے سے اسے ’’رکن اعظم ‘‘ قرار دیا ہے۔[4] اورمشائخ نقشبندیہ کے بقول یہ وصول الی اللہ کے تین طرق میں سے ایک طریقہ
Flag Counter