Maktaba Wahhabi

86 - 120
’’خلاصہ یہ کہ خطرات کو دور کرنے اورہمت کوقوی بنانے کی عبادات میں جس قدراہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے اورچونکہ تصور شیخ کی تاثیر اس امر میں انتہائی درجہ پر مفید ہے ’’فإن الشیخ في قومہ کالنبي في أمتہ‘‘ اس لیے تجربہ اورنصوص نے اکابر ملت کو اس طریقہ کے جاری کرنے پر آمادہ کیا تھا،امت کو اس سے بے شمار فوائد حاصل ہوئے ‘‘[1] 2۔شیخ کے اخلاق واعمال کا اتباع: تھانوی صاحب نے مذکورہ فوائد کے علاوہ ایک اورفائدہ یوں ذکرکیا ہے: ’’…اورفائدہ اس کا شیخ کے ساتھ شغف ہے جس سے بے تکلف اس کا اتباع اخلاق واعمال میں ہونے لگتا ہے،چونکہ احوال ثمرات ہیں اعمال کے،اس لیے وہ احوال بھی اس پر وارد ہونے لگتے ہیں ‘‘[2] ۳-پیرومرید کے درمیان مشرق ومغرب جیسا فاصلہ ہونے کے باوجود مرید کو تربیت وفیضان کا حصول: تصور شیخ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے شیخ کی غیبوبت اورایک مرید کی اس سے دوری اس سے استفادہ سے مانع نہیں ہوا کرتی۔چنانچہ ایک صوفی مصنف تصورشیخ کے اشکال وطرق بالتفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’اس عمل کے ذریعہ مرید اپنے شیخ سے تربیت پاتا رہے گا اگر چہ ان میں سے ایک مشرق میں اوردوسرا مغرب میں ہو ‘‘[3] اورشاہ ولی اللہ دہلوی شفاء العلیل میں ’’اشغال المشائخ النقشبندیۃ‘‘ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وصول الی اللہ کا تیسرا طریقہ رابطہ اوراعتقاد کا مل بہم پہنچانا ہے اپنے مرشد کے
Flag Counter